سلطان بایزید اول:
(۷۹۱ – ۸۰۵ ھ / ۱۳۸۹ – ۱۴۰۲ء)
سلطان مراد کی شہادت کے بعد، ان کے بیٹے بایزید نے ان کی جگہ سنبھالی۔ وہ ایک بہادر، بردبار، عالم اور اسلامی فتوحات کے بارے میں جذباتی شخصیت کے مالک تھے۔ اسی وجہ سے انہوں نے فوجی امور پر خاص توجہ دی۔ انہوں نے اناطولیہ کے نصرانی امارت کو اپنا ہدف بنایا، یہاں تک کہ اسی سال کے قریب تمام امارت کو عثمانی سلطنت کا حصہ بنا دیا۔ بایزید نے بلقان اور اناطولیہ کے محاذوں پر بجلی کی مانند حملے کیے، جن کے سبب انہیں ’’الصاعقہ‘‘ (آسمانی بجلی) کا لقب دیا گیا۔
سربیا کے متعلق بایزید کی حکمت عملی:
بایزید نے سربیا کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کیے، حالانکہ سرب قوم عثمانیوں کے خلاف بلقانی اتحاد کی بغاوت میں ایک بڑا سبب تھی۔ بایزید کا مقصد یہ تھا کہ سربیا کو عثمانی سلطنت اور ہنگری کے درمیان ایک دیوار کی طرح استعمال کیا جائے۔ بایزید کو ایک ایسے دوست کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی جو ایشیائے کوچک میں اسلامی اور ترک سلاجقہ امارت سے متعلق ان کی نئی عسکری حکمت عملی میں ان کے کام آ سکے۔
اس مقصد کے لیے بایزید نے سربیوں سے اس بات پر اتفاق کیا کہ کوسوو کی جنگ میں قتل ہونے والے بادشاہ (لازار) کے دونوں بیٹے سربیا کے علاقوں پر مقامی رسم و رواج، قوانین، روایتوں اور عادتوں کے مطابق حکومت کریں گے، لیکن وہ عثمانی سلطنت کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھیں گے، خراج (مالیہ) ادا کریں گے، اور جنگوں میں اپنی فوج کا ایک حصہ سلطان کی فوج کو ایک علیحدہ دستے کی صورت میں فراہم کریں گے۔ سلطان نے اس معاہدے کو مضبوط بنانے کے لیے بادشاہ لازار کی بیٹی سے نکاح کیا۔
عثمانی حکومت کے سامنے بلغاریہ کی شکست:
سربیوں سے معاہدہ طے پانے کے بعد، سن ۷۹۷ھ / ۱۳۹۳ء میں، بایزید تیزی سے بلغاریہ کی طرف روانہ ہوا اور اسے فتح کر لیا۔ تمام آبادی سمیت، ان کی سیاسی آزادی کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ بلغاریہ کی شکست کے بعد پورے یورپ میں سوگ کی کیفیت پھیل گئی، اور تمام یورپی طاقتیں مراد کی ہیبت اور رعب سے لرز اٹھیں۔ صلیبی اور عیسائی افواج نہ چاہتے ہوئے بھی اکٹھی ہو گئیں تاکہ بلقان سے عثمانیوں کے نام و نشان کو مٹا سکیں۔
عثمانی سلطنت کے خلاف عیسائی اور صلیبی اتحاد:
ہنگری کے بادشاہ سِگسمُنڈ اور نویں پوپ یُونِیفارس نے عثمانی سلطنت کے خلاف صلیبی اور عیسائی یورپی اتحاد کے لیے مہم کا آغاز کیا۔ یہ ان تمام اتحادوں میں سب سے بڑا اتحاد تھا جو چودھویں صدی میں عثمانیوں کے خلاف تشکیل دیا گیا تھا۔
کیونکہ اس اتحاد میں گذشتہ اتحادوں کے مقابلے میں زیادہ سلطنتیں شامل تھیں، اور ان سب نے اسلحہ، مال و دولت اور افواج جمع کرنے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا تھا۔ اس صلیبی یلغار میں تقریباً ۱۲۰۰۰۰۰ جنگجو شامل تھے، جو مختلف اقوام جیسے جرمن، فرانسیسی، انگریز، اسکاٹش، سوئس اور دیگر جنوبی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔
سن ۸۰۰ھ / ۱۳۹۶ء میں صلیبی قوتیں ہنگری کی طرف روانہ ہوئیں، لیکن جنگ سے پہلے ہی سرداروں اور سِگسمُنڈ کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے۔ سِگسمُنڈ اس بات کے حق میں تھا کہ صلیبی لشکر انتظار کریں، اور جب عثمانی افواج حملہ کریں، تب وہ جنگ کا آغاز کریں، لیکن باقی کمانڈروں نے انتظار کرنے سے انکار کیا۔
انہوں نے اپنی افواج کو فوراً حملے کا حکم دیا۔ وہ دریائے دانوب کے قریب اترے، یہاں تک کہ شمالی بلقان میں نیکوپولِس (Nicopolis) تک پہنچ گئے۔ وہاں پہنچتے ہی انہوں نے شہر کا محاصرہ کر لیا۔ ابتدا میں وہ عثمانی افواج پر غالب آئے، لیکن جب سلطان بایزید میدان میں نمودار ہوا تو اس کے ساتھ تقریباً ایک لاکھ سپاہی تھے۔
اگرچہ یہ تعداد یورپی صلیبی لشکروں کے مقابلے میں کم تھی، لیکن عسکری نظم و ضبط کے لحاظ سے عثمانی افواج کو ان پر فوقیت حاصل تھی۔ عیسائی شکست کھا گئے اور میدان سے فرار ہوئے، کچھ مارے گئے اور ان کے کئی بڑے سردار زندہ گرفتار کر لیے گئے۔
اس جنگ میں عثمانیوں کو بہت سا مالِ غنیمت حاصل ہوا اور دشمن کے بہت سے ذخائر پر قبضہ کر لیا گیا۔
فوج کی اس کامیابی پر سلطان بایزید نے فخر سے کہا: میں اٹلی فتح کروں گا، اور روم میں سینٹ پیٹر کے قربان گاہ پر اپنے گھوڑے کو جو کھلاؤں گا۔