سلطان محمد اول، عثمانی حکمرانوں میں نہایت قابل، بہادر اور محبوب شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ عثمانیوں نے ان کی صلاحیت اور شجاعت کی بنا پر انہیں ’’پہلوان‘‘ کا لقب دیا تھا۔ ان کی عظیم کامیابیوں کی بدولت عثمانی خلافت دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئی اور مضبوط بنیادوں پر قائم ہوئی۔ سلطان کی عادات، بردباری، علم سے محبت اور عدل پسندی کی وجہ سے عوام ان سے والہانہ محبت کرتے تھے اور انہیں ’’چلبی‘‘ جیسے معزز لقب سے نوازا گیا تھا، جو شرافت، وقار، بہادری اور عزت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
اگرچہ عثمانی فرمانرواؤں میں اور بھی بہت سے حکمران شہرت رکھتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سلطان محمد اول اپنے اخلاق، کردار اور حسنِ سلوک کے لحاظ سے ایک عظیم انسان مانے جاتے تھے۔ مشرقی اور یونانی مؤرخین نے بھی ان کے اعلیٰ اخلاق کا اعتراف کیا ہے۔ عثمانی مؤرخین نے انہیں ایک مدبر اور باصلاحیت ملاح (کشتی بان) کا لقب دیا ہے، جس نے عثمانی سلطنت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو اس وقت کنارے پر پہنچایا جب سلطنت تاتاری حملوں، خانہ جنگیوں اور اندرونی سازشوں کے طوفان میں گھری ہوئی تھی۔
سلطان محمد اول کا انتقال:
جب سلطان محمد اول نے سلطنت میں پیدا ہونے والے تمام فتنوں کو ختم کر دیا تو انہوں نے داخلی نظام کو مستحکم بنانے پر خاص توجہ دی تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات دوبارہ نہ ہوں جو سلطنت کی تباہی یا اس کی تقسیم کا باعث بنیں۔ عین اسی دوران ان کے سفرِ آخرت کا اجل آپہنچا۔ انہوں نے بایزید پاشا کو بلایا اور فرمایا: میں نے اپنے بیٹے مراد کو اپنا جانشین مقرر کیا ہے، اس کی اطاعت اور حمایت کرنا جیسے تم نے میرے ساتھ وفاداری نبھائی، ویسے ہی اس کے ساتھ بھی کرنا۔ مراد کو فوراً میرے پاس لاؤ کیونکہ میں بستر سے اٹھنے کے قابل نہیں ہوں اور اگر مراد کے آنے سے پہلے میرا انتقال ہو جائے تو میری وفات کا اعلان نہ کرنا۔
سلطان محمد اول کا انتقال ۸۲۹ ہجری / ۱۴۲۱ عیسوی میں ایدرنے (ایدریانوپل) شہر میں ہوا۔ اس وقت ان کی عمر ۴۳ برس تھی۔ مراد کے پہنچنے سے پہلے سلطان کی وفات ہوگئی، دونوں وزیروں نے وصیت اور ممکنہ ہنگاموں کے سدباب کے لیے طے کیا کہ ان کے انتقال کی خبر کو راز میں رکھا جائے یہاں تک کہ مراد پہنچ جائے۔ انہوں نے فوج میں بھی یہ بات پھیلائی کہ سلطان بیمار ہیں اور ان کا بیٹا ان سے ملاقات کے لیے آ رہا ہے۔ مراد ۴۱ دن بعد ایدریانوپل پہنچا تو وزیروں نے اسے سلطنت کی علامتی کنجیاں سونپ دیں۔
سلطان محمد اول دینِ اسلام، علم اور فقہاء سے بہت محبت رکھتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے سلطنت کا دارالحکومت فاتحین کے شہر ایدریانوپل سے بورصہ منتقل کیا، جو علمائے دین کا شہر سمجھا جاتا تھا۔ وہ ایک نہایت مہربان، بلند مرتبہ، سنجیدہ، صابر اور دوست و دشمن کے ساتھ متوازن رویہ رکھنے والے رمانروا تھے۔