جب داعشی خوارج اور باغی گروہ کے اتحاد کی بات آتی ہے تو یہ کچھ لوگوں کے لیے حیران کن اور حتی ناممکن بھی لگتا ہے، کیونکہ ان دونوں گروہوں کے مقاصد اور مطالبات بہت مختلف ہیں اور ان میں سے ہر ایک مختلف مقاصد کے لیے بغاوت پر آمادہ ہے۔
باغی گروہ اسلامی قانون کے خاتمے، اسلامی نظام کا تختہ الٹنے اور جمہوریت کے نام پر مغربی نظام نافذ کرنے کے لیے میدان عمل میں ہے جب کہ داعشی خوارج کا کہنا ہے کہ ان کا ہدف شریعت اسلامی کا نفاذ ہے۔
تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں دو مختلف جھنڈوں اورنعروں کے حامل گروہ متحد ہو کرافغانستان کے اسلامی نظام کی مخالفت کر رہے ہیں؟
ان لوگوں کے سوال کے جواب میں یہ کہنا چاہیے کہ اس مسئلے کو واضح کرنے اور سمجھنے کے لیے چند نکات پر غور کرنا ضروری ہے:
۱۔ داعشی خوارج اور باغی گروہ جن امورکا دعویٰ کرتے ہیں، وہ چند خالی نعروں سے زیادہ کچھ نہیں اوران کا اصل مقصد کچھ اور ہے۔
مثال کے طور پرداعشی خوارج ناحق قتل و قتال اور بے گناہوں کا خون بہانے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ان کے مخالفین اسلامی شریعت کو نافذ کرنے میں ناکام رہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوری حکومت کے خاتمے کے بعد امارت اسلامیہ نے افغانستان میں شریعت کا نفاذ کیا ہے، تو پھر یہ مخالفت اور جنگ کیوں کی جارہی ہے؟
اسی طرح باغی گروہ انسانی حقوق، خواتین کے حقوق اور افغانوں کے لیے بہتر زندگی کے لیے جمہوریت کو مضبوط کرنے کے نعرے بھی دیتا ہے، جب کہ ۲۰ سالہ قبضے کے دوران، ان بدعنوانوں اور مفسدین کے اقتدار میں کوئی مسلمان عورت محفوظ نہیں رہی، نہ افغان معصوم بچوں کے قتل کو روکا گیا اور نہ ہی جمہوری نظام سے عوام کے کوئی مسائل حل ہوئے۔
۲۔ حقیقت یہ ہے کہ خوارج اور باغیوں کے نعرے اور مقاصد ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں لیکن ان کے آقا اور ماسٹر مائنڈ امریکہ، خطے اور دنیا کی خفیہ ایجنسیاں ہیں ان کا مقصد ایک ہی ہے یعنی افغانستان سے اسلامی نظام کا خاتمہ۔
کفری افواج کی شکست کے بعد اب افغانستان میں ان کے مقاصد کا حصول پراکسی گروہوں کے حوالے کر دیا گیا ہے، جیسا کہ کہاوت مشہور ہے کہ جو کھلاتا ہے وہ اپنے احکامات بھی منواتا ہے۔
۳۔ چونکہ ان دونوں گروہوں کی کوششیں بیرونی قوتوں کی حمایت، خطےاور دنیا میں وسیع پروپیگنڈے کے باوجود ناکام رہیں اور انہیں کچھ حاصل نہ ہوسکا چنانچہ مجبورا وہ ایک دوسرے کی مدد کے لیے متحد ہو گئے۔
لیکن اپنے جاہل پیروکاروں کو مطمئن رکھنے کے لیے انہوں نے اپنے اتحاد کو چھپایا یہاں تک کہ اسلامی نظام کے بہادر سپاہیوں نے حالیہ کاروائیوں میں ان کا مکروہ چہرہ بے نقاب کر دیا اور اب ان کی اپنے پیروکاروں میں کوئی حیثیت نہیں رہی۔
میدان جنگ میں شکست کے بعد فکری اورمیڈیا کی جنگ میں بھی ذلیل و رسوا ہوئے اور ان شاء اللہ بہت جلد افغانستان میں ان کرپٹ و مفسد لوگوں کی جڑیں مکمل طور پر بنیادوں سے اکھاڑ پھینکی جائیں گی۔