داعش کے نام سے معروف خوارج دنیا کا وہ موجودہ فتنہ ہے جس نے خطے کے متعدد ممالک میں لوگوں کی پرامن اور خوشگوار زندگی کو خطرے میں ڈالا ہے اور اس کا سب سے بڑا نقصان اسلام اور اسلامی شعائر کو پہنچا ہے۔ جب یہ لوگ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوتے ہیں تو ان کے پیچھے وہ انٹیلی جنس حلقے ہوتے ہیں جو خطے اور دنیا کے شرپسند ممالک سے تعلق رکھتے ہیں جو نہ صرف مختلف ممالک پر قبضے و حملوں کا جال بچھاتے ہیں بلکہ اسلام کی حقیقی تصویر کو مسخ کرنے کے لیے ان اجرتی قاتلوں کو معلومات اور وسائل فراہم کرتے ہیں۔
اگر خوارج کی بزدلانہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ انہوں نے تاریخ کے دوران اسلام اور شریعت کی بے حرمتی بہت ہی بزدلانہ طریقے سے کی ہے۔ انہوں نے اسلامی ممالک کے مصلح رہنماؤں، علماء اور حقیقی مجاہدین کو قتل کیا ہے، اس سلسلے میں ہمارا پیارا افغانستان بھی پُرامن نہیں رہ سکا اور حالیہ واقعات میں افغانستان کے وزیر برائے مہاجرین و امورِ پناہ گزین الحاج خلیل الرحمن حقانی کو ایک بزدلانہ حملے میں شہید کر دیا گیا۔
یہ بات یقیناً سب پر واضح ہوگئی ہے کہ امارتِ اسلامیہ کے اقتدار میں آنے کے بعد دوحہ معاہدے کی وہ شق پوری طرح نافذ ہوگئی ہے جس کے مطابق افغان سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا اور یہ شق واقعی سختی سے نافذ ہو رہی ہے، جیسا کہ حالیہ دنوں میں امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے۔
لیکن بعض حلقے اور شرپسند ممالک ابھی بھی امارتِ اسلامیہ پر اس بات کا الزام لگاتے ہیں کہ خوارج کی جڑیں اب بھی افغان سرزمین پر موجود ہیں جو ایک غلط دعویٰ ہے۔ وزیرخارجہ ملا امیر خان متقی نے شہید خلیل الرحمن حقانی کی فاتحہ کے موقع پر ایک بار پھر یہ حقیقت واضح کی کہ خوارج نے افغانستان میں گزشتہ سات مہینوں کے دوران سات حملے کیے، انٹیلی جنس ذرائع نے مصدقہ اطلاعات دی ہیں کہ یہ تمام حملے افغانستان سے باہر پلان کیے گئے تھے، ہمسایہ ممالک اور خطے کے دیگر ممالک میں ترتیب دیے گئے ہیں۔
جناب متقی نے خطے کے ممالک سے اپیل کی کہ وہ ظالم گروپوں کی ان ناگوار کارروائیوں پر آنکھیں بند نہ کریں، ان گروپوں کو نہ تو اڈے فراہم کریں اور نہ ہی وسائل مہیا کریں، کیونکہ یہ گروہ نہ تو افغانستان کے مفاد میں ہیں اور نہ ہی آپ کے مفاد میں، ان کے مذموم اقدامات کے نتیجے میں جانی و مالی نقصانات ہوں گے اور اس کے حتمی اثرات ان کے مالی معاونین پر بھی پڑیں گے، جو خود اس آگ میں جل کر رہ جائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کے ممالک کو چاہیے کہ وہ افغانستان کے ساتھ مل کر اس مشترکہ دشمن کو ختم کرنے اور اس کی روک تھام میں افغان حکومت کی جدوجہد کی حمایت کریں۔ متقی صاحب کے بیانات واقعی اس حقیقت کو بے نقاب کرتے ہیں کہ افغانوں نے کبھی بھی کسی دوسرے ملک کے لیے کوئی سیکیورٹی خطرہ پیدا نہیں کیا۔ خوارج اور متعلقہ گروپوں کی تخریبی کاروائیوں کی منصوبہ بندی یا ان کے وسائل کی فراہمی کے ذرائع بھی ہمسایہ ممالک اور خطے کے دوسرے ملکوں کی سرزمین پر ثابت ہوچکے ہیں جو کسی بھی سفارتی اصول یا ضابطے کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔
اسی دوران اسلامی امارت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بی بی سی کو دیے گیے ایک خصوصی انٹرویو میں ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی۔ بلکہ یہ خود خطے کے ممالک کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہمسایہ ہونے کے ناطے افغانستان میں امن وامان برقرار رکھنے کے لیے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔
انہوں نے حقانی صاحب کی شہادت کے حوالے سے کہا کہ اپاہج ہونے کا بہانہ اور اپنی بیماری سے بزدلانہ فائدہ اٹھانا اور ایک مصلح و مجاہد رہنماء کو قتل کرنا داعش کی طاقت نہیں بلکہ اس کی کمزوری کو ظاہرکرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ حملہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ امارت اسلامیہ مظلوموں اور کمزوروں کے ساتھ کتنی مہربانی سے پیش آ رہی ہے۔
دنیا کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ امارت اسلامیہ ہمسایہ ممالک، خطے اور پوری دنیا کے لیے خطرے سے نمٹنے کے لیے اکیلے ہی نبرد آزما ہے اور ان کی جڑیں کاٹ کر رکھ دی ہیں، اس کے برعکس ہمسایہ ممالک اور دنیا امارت کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے خوارج اور ان کے اجرتی قاتلوں کو اپنے ممالک میں پناہ گاہیں اور وسائل فراہم کر رہے ہیں۔ اگر یہ غفلت اسی طرح جاری رہی تو بعید نہیں کہ یہ فتنہ ان کے اپنے ممالک اور نظاموں کو نقصان پہنچائے اور وہ اپنے ہاتھ سے جلائی گئی آگ میں جل کر خاکستر ہو جائیں۔