۱۔ طویل مدتی بقا:
محترم قارئین! آپ جانتے ہیں کہ داعش کی تکفیری تحریک دوسرے دہشت گرد گروہوں سے مختلف ہے جو بچوں اور نوجوانوں کو بطور سپاہی اور جنگجو استعمال کرتے ہیں۔
داعش گروہ کی جانب سے بچوں کو اپنی خلافت کی طرف راغب کرنے کا ایک بنیادی عنصر یہ ہے کہ نئی اور نوجوان نسل کو بھرتی کرنے کے بعد یہ ایک طرف اپنی طویل مدتی بقا کو یقینی بنائیں گے اور دوسری طرف اپنی طاقت کو مزید وسعت دیں گے۔
محققین کا خیال ہے کہ داعش کی جانب سے بچوں کے خلاف کیے جانے والے مظالم میں سے ایک ان کا مسلح تنازعات میں استعمال اور بچوں کی جبری بھرتی ہے۔
اس گروہ نے ہمیشہ مستقبل کے عسکری افراد تیار کرنے کے لیے بچوں کو اغوا کیا اور انہیں تربیتی کیمپوں بلکہ نظریاتی تربیت کے لیے جنگ کے اگلے مورچوں پر بھیجا ہے۔
اقوام متحدہ کی طرف سے تصدیق شدہ معلومات کے مطابق داعش نے صرف موصل نامی ایک چھوٹے سے علاقے میں ۸۰۰ سے ۹۰۰ بچوں کو مذہبی اور عسکری تعلیم کے لیے اغوا کیا ہے۔
داعش کی جانب سے جاری کی گئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بچے فوجی تربیت، قرآن پاک کی تلاوت اور مذہبی اسباق میں مصروف ہیں، عقائد ونظریات کے معلمین انہیں اسلامی فکر و نظریہ کے برخلاف تعلیم دے رہے ہیں؛ تاکہ تمام مسلمانوں سے ان میں نفرت اور دشمنی سکھائی جائے۔
اگرچہ داعش کی طرف سے بچوں کی جبری بھرتی بڑے پیمانے پر ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ کچھ بچے اپنی مرضی سے اس گروہ میں شامل ہوئے ہیں، البتہ ان کی بھرتی کو صرف اپنی مرضی کی نظر سے نہ دیکھا جائے، اس کے کئی عوامل ہیں مثلاً فقر، عدم تحفظ، نفسیاتی اور امتیازی سلوک اس حوالے سے سرفہرست عوامل ہیں۔
عام طور پرداعش میں بچوں کی شمولیت کے تین طریقے ہیں:
- وہ بچے جو رضاکارانہ طور پراس گروہ میں شامل ہوتے اوراپنا نام درج کرواتے ہیں۔
- وہ بچے جو داعش کے خاندانوں میں پیدا ہوئے اور اس گروہ میں شامل ہوئے۔
- وہ بچے جنہیں اغوا کیا گیا ہے اور زورو زبردستی کے ذریعے انہیں بھرتی کیا گیا ہے۔
لہٰذا یہ واضح ہو گیا کہ داعش کو فوری طور پر بچوں کو بھرتی کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اس وجہ سے وہ اس شعبے میں تمام امکانات کو بروئے کار لاتے ہوئے طویل مدتی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
بچوں کی اس نسل کو ذہنی اور جسمانی طور پر تیار کیا جا رہا ہے کہ وہ مستقبل کے جنگجو بننے کے لیے، اس سے زیادہ وحشیانہ جرائم کرنے کے قابل ہوسکیں، جو اس گروہ نے ماضی میں کیے اور آج بھی کر رہے ہیں۔