اسلامی ممالک پر کفار کی یلغار کے لیے راستہ ہموار کرنا:
ان تمام ممالک میں جہاں داعشی خوارج نے اپنے ناپاک قدم رکھے ہیں اور دشمنانِ اسلام کے حملوں کے لیے زمین ہموار کی ہے، ان میں افغانستان، مالی، نایجر، چاڈ، اور بورکینا فاسو شامل ہیں۔
وہ ممالک جن میں داعشی خوارج کے ظہور کے ساتھ، کفری ممالک نے داعش کے خلاف مقابلہ کرنے کے بہانے حملے کیے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف ان ممالک میں داعش کی طرف سے پیدا کردہ مشکلات کا خاتمہ نہیں ہوا، بلکہ وہ خود بھی وہاں کی عوام کے لیے ایک آفت اور عذاب کی طرح ثابت ہوئے ہیں، اور ان کی زندگیاں پہلے سے زیادہ آلام و مصائب کا شکار ہوئی ہیں۔
ان میں سے کچھ ممالک، جیسے افغانستان میں، اگرچہ امریکی قابضین اور ان کے اتحادیوں کی موجودگی داعش کے ظہور سے پہلے بھی موجود تھی، ان کفری افواج کی موجودگی داعش کے ظہور کے لیے ایک مناسب وجہ سمجھی گئی؛ اس لیے نہیں کہ داعش ان کے خلاف برسرِ پیکار ہوگی بلکہ اس لیے کہ داعش کا وجود اس سرزمین میں کفری ممالک کی افواج کی بقا کی ضمانت دیتا تھا۔
مالی: شمالی مالی میں داعش کے ظہور کے بعد فرانس نے ۲۰۱۳ء میں ’’سروال‘‘ نامی بڑے فوجی آپریشن کا آغاز کیا؛ اس کے بعد فرانس کی عسکری موجودگی داعش کے خلاف جنگ کے بہانے وسیع ہو گئی اور ’’برخان‘‘ آپریشن کے نام سے بدلی، جو کہ کئی دوسرے ممالک میں بھی سرگرم رہی۔ حالانکہ فرانس کا نعرہ دہشت گردی کے خلاف جنگ تھا، لیکن بہت سے لوگوں نے اسے نیا استعماری قبضہ قرار دیا؛ کیونکہ اس کا حقیقی مقصد ان علاقوں کے لوگوں کی مادی اور معنوی دولت کا لوٹنا تھا، جو کہ اس ملک میں داعش کے وجود کی بدولت ممکن ہوا۔
نایجر: ’’ساحل‘‘ (Sahel) علاقے میں داعش کی سرگرمیوں کے توسیع اور سرحدی علاقوں پر حملوں کے بعد، امریکہ اور فرانس نے داعش کے خلاف جنگ کے بہانے نایجر میں نئے فوجی اڈے قائم کئے، جن میں اگادیز میں امریکی ڈرون طیاروں کا اڈہ ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ لیکن یہ اقدامات، جیسا کہ توقع کی گئی تھی، صرف داعش کے خلاف جنگ کے بہانے تھے۔ اگرچہ کبھی کبھار داعش کے خلاف کاروائیاں کی جاتی ہیں، لیکن امریکہ اور فرانس کا مقصد اس ملک میں داعش کی موجودگی کا خاتمہ کرنا نہیں تھا۔
چاڈ اور بورکینا فاسو: چاڈ اور بورکینا فاسو بھی داعش کے ظہور کے بعد فرانس اور اس کے مغربی اتحادیوں کے اثر و رسوخ میں اضافے کے شاہد ہیں، یہ ایسا اثر و رسوخ ہے جو داعش کے جرائم کی روک تھام میں کوئی مثبت اثر نہیں ڈال سکا۔
یاد رہے کہ مذکورہ ممالک کے نئے حکومتی اداروں کی طرف سے مغربیوں کی موجودگی کی حقیقی نوعیت کو سمجھنے اور عوامی بے اعتمادی میں اضافے کے ساتھ، ان ممالک میں مغربیوں کی موجودگی کو عوام اور حکومت کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے، اور بہت سے لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ مغربی طاقتیں ان ممالک سے نکل جائیں۔
داعش کا مختلف اسلامی ممالک پر یلغار کے لیے استعمال ہونا اب کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے، اور سب اس بات پر متفق ہیں کہ جب بھی کسی ملک میں داعشی خوارج کے ناپاک قدم پڑتے ہیں، تو اس کے بعد اس گروہ کے مغربی آقاؤں کی طرف سے اس کے خلاف جنگ کے بہانے، اس ملک پر قبضہ کیا جاتا ہے، اور اس دوران نہ صرف داعش کی موجودگی کا خاتمہ نہیں ہوتا، بلکہ داعشی خوارج کے مقابلے میں ان علاقوں کے رہائشیوں پر زیادہ ظلم و ستم کیا جاتا ہے۔