اسلامی شہروں کی تباہی:
کفری دنیا کے لیے داعشی خوارج کی ایک اور خدمت مسلمان بستیوں اور شہروں کی تباہی شمار جا سکتی ہے۔ جہاں کہیں بھی داعشی خوارج نے قدم رکھا، وہ علاقہ ایسے کھنڈرات میں بدل گیا کہ اس کی دوبارہ تعمیر تقریباً ناممکن ہو گئی اور شہروں کی شکل و صورت مکمل طور پر بدل گئی۔
ان شہروں میں خوارج کی جانب سے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی گئی، جس میں بنیادی ڈھانچے، مکانات، مراکزِ صحت، اسپتال، تاریخی مقامات اور یہاں تک کہ اسکول اور مساجد بھی بڑی حد تک یا مکمل طور پر تباہ کر دی گئیں۔
جب داعشی خوارج نے عراق کے بہت سے علاقوں پر اپنا قبضہ جمایا ہوا تھا، موصل شہر، جو عراق کا دوسرا سب سے بڑا شہر تھا اور جس کی آبادی دو ملین سے زیادہ تھی، اور جو عراق کا ایک اہم اقتصادی اور ثقافتی مرکز سمجھا جاتا تھا، اس کے ۸۰ فیصد مغربی علاقے، خاص طور پر قدیم علاقے، مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔
حدباء مینار اور النوری مسجد، جو تقریباً ۱۱۷۲ء (چھٹی ہجری صدی) میں نورالدین زنگی کے دور میں تعمیر کی گئی تھی اور جو ۸۴۰ سال سے زیادہ قدیم حاصل تھی، بھی ۲۰۱۷ء میں اس وقت تباہ کر دی گئی، جب موصل شہر داعش کے قبضے میں تھا۔
شام کا رقہ شہر بھی ان بدقسمت شہروں میں شامل ہے جو داعشی خوارج کی منحوس موجودگی کا شکار ہوا۔ یہ شہر تقریباً ۷۰ سے ۸۰ فیصد مکمل طور پر تباہ ہوگیا، اور ۱۱ ہزار سے زائد مکانات—جو شام کے مظلوم مسلمانوں کی پناہ گاہ تھے—ہسپتالوں اور اسکولوں سمیت ملبے کا ڈھیر بن گئے۔
جب داعشی خوارج اپنے خیالی خلافت کو وسعت دینے میں مصروف تھے، تو ان کی یہ ظالمانہ حکمت عملی لیبیا کے سرت شہر میں بھی دہرائی گئی۔ یہ شہر بہت ہی کم عرصے میں ۶۰ سے ۷۰ فیصد برباد ہو گیا، جس میں رہائشی علاقے، شہری انفراسٹرکچر، سڑکیں اور ہسپتال سب تباہ و برباد ہو گئے۔
شام کا الباغوز نامی چھوٹا شہر، جو خوارج کے کنٹرول میں رہنے والے آخری علاقوں میں سے تھا، شدید جنگوں اور تباہ کاریوں کا گواہ بنا۔ وہ جنگیں جو خوارج کے ناپاک وجود کی بدولت ہوئیں، اس شہر کو ۹۰ فیصد تباہ کرنے کا سبب بنیں، جس میں بیشتر مکانات اور سڑکیں زمین بوس ہو گئیں۔
شام کے حلب اور دیرالزور اور عراق کے الرمادی اور فلوجہ جیسے شہر، جو سنی مسلمانوں کے مراکز سمجھے جاتے تھے، داعشی قبضے کے بعد بری طرح متاثر ہوئے۔ ان شہروں میں بنیادی ڈھانچے مکمل طور پر تباہ ہو گئے، اور یوں جہاں کہیں بھی داعشی خوارج نے قدم رکھا، وہ تمام اسلامی شہر یکے بعد دیگرے ملبے کا ڈھیر بنتے چلے گئے۔