چونکہ داعشی خوارج نے اپنے اعمال و افعال میں کسی قسم کی جہالت و سرکشی سے دریغ نہ کیا، لہذا جو کام وہ چاہتے اپنے پیرؤوں کے لیے حلال قراردیتے۔ اسی طرح انہوں نے پیسوں اور رقوم کی دستیابی کے حوالے سے ہر راستے کو چنا چاہے وہ جائز ہو یا نہ ہو۔
گذشتہ قسطوں میں داعشی خوارج کی جانب سے عالم اسلام کے بازاروں سے پیسہ کمانے کے مختلف طریقوں کی تفصیلی وضاحت دی گئی تھی۔
یہ قسط اس سلسلے کی آخری قسط ہے، ہم خوارج کی ان گھناؤنے جرائم کے بارے میں بات کریں گے جو اپنی نام نہاد خلافت کے قیام کے لیے انہوں نے سرانجام دیے، جس کے نتیجے میں صرف اور صرف مسلمانوں کو مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔
داعشی خوارج نے نہ صرف اسلامی اصولوں کو پامال کیا بلکہ انسانی وقار کو بھی مسخ کر ڈالا اور انسانی جسم کے اعضاء کی اسمگلنگ جیسی وحشیانہ کارروائیوں میں مصروف رہے، یہ مذموم عمل اسلامی تعلیمات کے بالکل منافی عمل ہے۔
ڈیلی میل اخبار کے مطابق، ساروان نامی ایک عراقی ڈاکٹر، جو کان، گلے اور ناک کے ماہر تھے، نے بتایا کہ اعضاء کی اسمگلنگ کا یہ عمل داعش نے ۲۰۱۴ء میں موصل شہر میں شروع کیا تھا، اس گروہ نے اس طریقہ کار کو انجام دینے کے لیے غیر ملکی سرجنوں کی خدمات حاصل کیں۔
۲۰۱۶ء میں اس اخبار نے موصل کے مقامی ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی تھی کہ داعش نے ۲۳ افراد کی لاشیں چوری کی تھیں، جو کہ ہلاک یا زخمی ہو گئے تھے، اور موصل کے ایک ہسپتال میں جراحی کے ذریعے جسم کے اعضاء کو نکال کر پیسے کے عوض فروخت کر دیا تھا۔
اس کے علاوہ داعشی خوارج نے جسم کے اعضاء، جیسے دل، جگر، گردے اور آنتوں کی اسمگلنگ اور فروخت کے لیے مارکیٹ میں ایک خصوصی شعبہ قائم کیا تھا، جس سے بہت زیادہ مالی منافع حاصل ہوا تھا۔
العالم نیوز نیٹ ورک کے مطابق، ہسپانوی خبررساں ادارے”الموندو” نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ داعش کی جیلوں میں سزائے موت پانے والے کم از کم ۱۸۳ افراد کے موصل کے تین ہسپتالوں میں مختلف سرجیکل آپریشن کیے گئے اور وہ زیر نگرانی تھے، ان آپریشنوں میں ان کے جسم کے حصوں کو نکال دیا گیا تھا.
موصل میں طبی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے، الموندو نے لکھا کہ ہسپتال کے کارکنوں نے کم از کم ۱۶۳ لاشیں دیکھیں، جن کے سینے سے پیٹ تک ٹانکے لگے ہوئےتھے۔
خوارج کی جانب سے جسمانی اعضاء کی اسمگلنگ کے بارے میں مختلف معتبر غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی رپورٹیں اس وقت قابل اعتبار ٹھہریں، جب داعش کو عراق اور شام میں شکست ہوئی اوران کے ظلم و جبرکا دور ختم ہوا، ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر اجتماعی صورت میں قتل ہونے والے افراد کی باقیات دریافت ہوئیں۔ خوارجیوں کی طرف سے، کچھ لاشوں کو مکمل جسم پر ٹانکے لگا دیے گیے تھے اور جسم کے اہم اعضاء کو نکال دیا گیا تھا، یہ ایک ایسا عمل تھا جس نے خوارج کا چھپا ہوا مکروہ چہرہ عیاں کر دیا۔
جی ہاں! اس حصے میں اور پچھلے حصوں میں جو کچھ کہا گیا ہے، وہ داعش کی کاروائیوں اور گھناؤنے جرائم کی ایک جھلک ہے، یہ ایک ایسے ناسور کی مانند تھا جو امت مسلمہ کے جسم کو لگ چکا تھا، اب جب کہ ان کی خلافت کے اعلان کو دس سال گزر چکے ہیں، اب اللہ کا شکر ہے کہ امت مسلمہ ان کے جرائم سے محفوظ ہے اور جلد ہی اس عظیم فتنے کا بنیادوں سے خاتمہ ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ