داعشی گروہ جس کے ارکان میں ۲۰۱۴ء میں نمایاں اضافہ ہوا، اس وقت انہوں نےعالمی خلافت کا دعوے شروع کر دیے، دنیا کے بہت سے ممالک کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور بظاہر اس گروہ کا پروپیگنڈہ بہت مؤثر تھا، انہوں نے جارحانہ پروپیگنڈے سے اپنے تمام نقائص وعیوب چھپا رکھے تھے۔
ایک جرمن مصنف، سیاست دان اور صحافی Jürgen Tudenhofer نے مشرق وسطیٰ میں مختلف مسلح گروہوں، خاص طور پر داعش پر تحقیق کی ہے، اس نے داعش سے متعلق گروہ کے کئی ارکان سے انٹرویوز کیے ہیں، اپنےانٹرویوز کے مجموعے کو انگریزی اور دیگر زبانوں میں شائع کیا ہے۔
Jürgen Tudenhofer نے سلیم نامی داعشی گروہ کے ایک جرمن رکن کا انٹرویو کیا، داعش کے اس رکن نے، جو اس وقت شام میں مقیم تھا، داعش کے بارے میں انتہائی دلچسپ حالات بیان کیے جو اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔
سلیم پہلے جبہۃ النصرہ کا رکن تھا، لیکن جب داعش کا گروہ وجود میں آیا تو وہ داعش کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوا اور داعش کی طرف راغب ہوا۔ یہ انٹرویو ۲۰۱۴ء میں اسکائپ کے ذریعے لیا گیا تھا، جب ابوبکر البغدادی نے عراق اور شام میں نام نہاد "خلافت” کا اعلان کیا تھا۔
انٹرویو میں، سلیم سے داعش کے بارے میں پوچھا گیا، وہ اپنی صفوں میں موجود ملیشیاؤں اور قیادت کے بارے میں کہتا ہے: البغدادی ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف لڑتا ہے، اور جنگ میں حاصل کی گئی اشیاء جنہیں غنیمت کا نام دیتے ہیں، انہیں وہ خود لیتا ہے۔
داعش کو جہاد اور مسلمانوں کے کلچرو ثقافت کا علم نہیں، وہ نہیں جانتے کہ وہ لوگوں کو موقع دیں، جو لوگ ۴۰ سال سے سگریٹ پی رہے ہیں، ان کے حوالے سے حکمت سے کام لینے کے بجائے، داعش انہیں سگریٹ پینے کے الزام میں مارتے ہیں، باقی وہ کون سے بری سرگرمیاں ہیں جو وہ سرانجام نہیں دیتے؟ (یہاں اس نے داعش کی انتہا پسندی کی طرف اشارہ کیا ہے)۔
سلیم اپنے دردِ دل اور حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: داعش قاتل ہیں، اگر وہ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور اللہ کے قانون کے مطابق عمل پیرا ہیں تو ان سے پوچھا جائے کہ قتل کیے جانے والے کس عدالت کی بنا پر قتل ہوئے؟ یہ لوگوں کو قتل کرنے میں سرکشی اور جلد بازی سے کام لیتے ہیں، مثال کے طور پرجو شخص سگریٹ پیتا ہے، اسے فوراً پکڑ لیتے ہیں اور اس کا ہاتھ کاٹ ڈالتے ہیں۔
اسی انٹرویو کے دوران سلیم کہتے ہیں، ’’میرے سامنے سگریٹ کے کئی ڈبے پڑے ہیں جو تمباکو نوشی کے لیے رکھے ہوئے ہیں، یہاں داعش کے ایسے افراد بھی ہیں جوڈاڑھیاں نہیں رکھتے، وہ موسیقی بھی سنتے ہیں، اور جو کچھ کرنا چاہتے ہیں، کرتے ہیں۔‘‘
اس سے واضح ہوتا ہے کہ داعشی خوارج ان اعمال کو اپنے لیے درست سمجھتے ہیں اور جان بوجھ کر کرتے ہیں، اور صغائر کی بنیاد پرانتہائی لاپروائی اور وحشت سےمسلمانوں کو صحرائی عدالتوں میں قتل کیا جاتا ہے۔
افغانستان میں اس گروہ کے وجود میں آنے کے بعد ان کی جانب سے غیر قانونی اور دھڑلے سے قتل و غارت گری کے واقعات صوبہ ننگرہار کے علاقے ماموند اور بٹی کوٹ میں پیش آئے جن کے بعض عینی شاہدین اور خاندان کے افراد اب تک زندہ ہیں، داعشی خوارج کے لیے اپنے مزاج و پسند کے مطابق قتل وغارت گری ایک عام معمول ہے۔