ریاستِ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان جنگ: اہلِ پاکستان کے لیے لمحۂ فکریہ

✍️ مفتی ابو حارث : فاضل ومتخصص جامعہ اسلامیہ مخزن العلوم کراچی

#image_title

پاکستانی فوج کے ترجمان ادارے (آئی ایس پی آر ) اور تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان ادارے ( عمر میڈیا ) کی تمام نشریات کو میں ایک آزاد پاکستانی شہری کی حیثیت سے کافی عرصہ سے دیکھتا اور سنتا آ رہا ہوں، پھر دونوں کی خبریں بالخصوص جن خبروں کا تعلق دھشتگردی کے واقعات سے ہوتا ہے ان کی آزاد ذرائع سے تصدیق کرنے کی کوشش بھی میرے معمولات میں سے ہے، اس وجہ سے زیر نظر تحریر میں حقائق کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کروں گا کہ اس جنگ میں ریاستی اداروں کامقابلہ کس کے ساتھ ہے؟ اور کیا ریاستی ادارے یہ جنگ "عزمِ استحکام” جیسے نئے نئے آپریشنز لانچ کرنے سے جیت پائیں گے؟

شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات

حالیہ کچھ دنوں میں آئی ایس پی آر کی یکے بعد دیگرے دو پریس کانفرنسز سننے کا بھی موقع ملا، جن میں فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف نے کچھ انکشافات کئے۔

ایک انکشاف یہ کیاکہ امسال سیکیورٹی اداروں نے تئیس ہزار چھ سو بائیس (۲۳،۶۲۲) آپریشنز کئے، یعنی روزانہ کی بنیاد پر ۱۱۲ آپریشن کیے جارہے ہیں، جن میں فوج کے فقط ۱۳۹ افراد مارے گئے، جبکہ ۳۹۸ دھشتگرد مارے گئے اور ہزاروں کی تعداد میں گرفتار کرلئے گئے۔

دوسری طرف تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان ادارے ( عمر میڈیا) نے بھی سال ۲۰۲۴ء کے پہلے چھ مہینوں کی کارروائیوں کی ایک رپورٹ نشر کی ہے، جس میں ان کے دعوے کے مطابق جنوری تا جون پاکستانی سیکیورٹی اداروں پر ٹی ٹی پی کی جانب سے حملوں کی تفصیل درج ذیل ہے:

جنوری ۷۵
فروری ۶۵
مارچ ۶۶
اپریل ۹۶
مئی ۹۹
جون ۹۶
کل حملے ۴۹۷

دشمن کا جانی نقصان

ہلاکتیں ۴۸۳
زخمی ۶۴۹
کل ہلاک و زخمی ۱۱۳۲
گرفتاریاں ۳

ششماہی رپورٹ کے بعد اگر جولائی کی کاروائیوں کو بھی شامل کیا جائے جو ٹی ٹی پی کی تاریخ میں ایک ماہ کے اندر سب سے زیادہ کاروائیاں ہیں تو اس تعداد میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

جولائی ۲۰۲۴ء

ہلاکتیں ۹۱
زخمی ۱۲۴
کل ہلاک و زخمی ۲۱۵

اس حساب سے سات ماہ کے اندر ریاست پاکستان کے جانی نقصانات کا تناسب کچھ یوں بنتا ہے:

جنوری تا جولائی ۲۰۲۴ء

کل ہلاکتیں ۵۷۴
کل زخمی ۷۷۳
کل ہلاک و زخمی ۱۳۴۷

مذکورہ دونوں رپورٹوں کے تناظر میں ہم ، اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ، اس جنگ میں جانی نقصانات کا جو تناسب سامنے آیا ہے ، اس کو ماننے کے لئے فریقین میں سے کوئی بھی فریق تیار نہیں ہے، تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ بالآخر یہ نقصانات کون برداشت کررہا ہے؟

ٹی ٹی پی اگر اپنے نقصانات کم بتائے تو یہ بات کسی درجے میں سمجھ میں آتی ہے، کیونکہ ان کی جنگ کی نوعیت گوریلا کاروائیاں ہیں، جن میں جنگجوؤں کے نقصان کی شرح بہت کم ہوتی ہے اور مدمقابل کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ البتہ ریاست پاکستان کی طرف سے جن نقصانات کا ذکر سامنے آرہا ہے اور ٹی ٹی پی اس کو تسلیم نہیں کرتی، تو ایسے نقصانات کونسی مخلوق اٹھاتی ہے؟ وہ ہے کون ہے جو اس قدر جانی نقصانات برداشت کرنے کے باوجود بھی خاموش ہے؟

اس پیچیدہ سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے ، اور اس خاموشی کا طلسم توڑتے ہوئے ہم یقین سے یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ جو نقصانات ٹی ٹی پی تسلیم نہیں کرتی لا محالہ اسے برداشت کرنے والی کوئی خلائی مخلوق نہیں بلکہ پاکستانی عوام ہی ہیں۔

اور یہ دعویٰ میں بلاوجہ نہیں کر رہا بلکہ کئی قوی دلائل اور مظبوط شواھد کی بنا پر پاکستان کے ایک آزاد شہری کی حیثیت سے میں یہ بات کہنے کی جسارت کررہاہوں، ریاستی اداروں کی جانب سے جن نقصانات کے دعوے کئے جاتے ہیں، وہ پاکستانی عوام ہی برداشت کررہی ہے۔

اپنے اس دعوے کو میں عوام کے کٹہرے میں لا کر اس کا جائزہ لوں گاکہ پاکستانی عوام ایسے نقصانات کا ذمہ دار ان فریقین میں سے کس فریق کو قرار دیتے ہیں؟

عوامی سطح کی چند مثالوں سے قارئین بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس جنگ میں عمومی تباہی کا ذمے دار کون سا فریق ہے۔

پہلی مثال:

پاکستانی عوام نے جب بھی لاپتہ افراد کا مسئلہ اٹھایا ہے تو دو دہائیوں سے ہزاروں پاکستانیوں کو لاپتہ کرنے کی ذمہ دار ریاستِ پاکستان کو ٹھہرا رہی ہے، اور بازیابی کے مطالبات ریاستی اداروں سے کررہی ہے ، عوام ان لاپتہ افراد کو اٹھانے والے اداروں کی پہچان بھی کرچکی ہے، اور جہاں سے، جس تاریخ کو کوئی فرد اٹھایا گیا ہے، گواہوں کے ساتھ مائیں، بہنیں، بوڑھے اور جوان عدالتوں اور کچہریوں کے چکر کاٹتے اور چوکوں چوراہوں پر آہو زاریاں کرتے ناامید ہو چکے ہیں، امسال مئی کے مہینے میں احمد شریف نے اپنی پریس کانفرنس میں دس ہزار لاپتہ افراد کا اقرار کیا کہ یہ لوگ اداروں کے پاس موجود ہیں ، مگر اس کے باوجود بھی ان کو قانونی چارہ جوئی کا موقع فراہم نہیں کیا جا رہا۔

نیز ریاستی ادارے جن بے گناہ عوام کو گرفتار کرتے ہیں، تو کافی عرصہ تو انہیں تہہ خانوں میں ڈال کر بھلا دیا جاتا ہے، والدین ، بیوی بچوں اور رشتےداروں کو اپنے لخت جگر کی موت وحیات کا کوئی علم نہیں ہوتا، ضرورت پڑنے پر بھوکا پیاسا رکھ کر، زہر دے کر یا جعلی مقابلوں میں ان بے یارو مددگار لوگوں کو زندگی سے محروم کرکے بری طرح کچل دیا جاتا ہے۔

اور اگر کسی قیدی کی رہائی ان کو مطلوب ہو تو ان بے چاروں کے رشتہ داروں سے رابطہ کرکے بھاری بھرکم پیسوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور یوں اس قیدی اور اس کے رشتےداروں کو زندگی بھر کی جمع پونجی سے بھی محروم کردیا جاتاہے۔ فالی اللہ المشتکی ، یہ کوئی ہوائی باتیں نہیں بلکہ ایسی حقیقت ہے جس کا راقم الحروف چشم دید گواہ بھی ہے۔

اسکا واضح مطلب یہ ہوا کہ ضربِ عضب، رد الفساد یا عزم استحکام نامی آپریشنز میں ریاستی اداروں کا ہدف زیادہ تر وہ عوام اور سیاسی طبقہ ہے جو ریاستی اداروں کے مفادات میں حائل ہوتے ہیں۔

دوسری مثال:

گلگت بلتستان کے پہاڑوں سے بلوچستان کے ریگستانوں تک، یہ ۲۷۰۰ کلومیٹر سرحدی خطہ مختلف قسم کی معدنیات، زخائر اور قیمتی جنگلات سے مالامال ہے۔ ان علاقوں میں دھشتگردی کے نام پر جنگ مسلط کرکے ریاستی ادارے منظم پلان و منصوبہ بندی کے تحت ان ذخائر اور قیمتی معدنیات کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ جنگ کے آغاز میں تو بے چاری عوام کو تو اس کھیل اور منصوبے کا علم ہی نہیں تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ عوام کو ہوش آیا کہ اس جنگ کے پیچھے ریاستی اداروں کے مکروہ عزائم کیا تھے، اسوقت سرحدی اور قبائلی خطے کے عوام اس بات کو اچھی طرح جان چکی ہے کہ ان تمام منصوبوں کے پیچھے ضرور کسی خاکی وردی والے فوجی جرنیل یا آفیسر کا ہاتھ ہوتا ہے، بالفاظ دیگر ریاستی اداروں میں اگر دھشتگردی کے نام پر ایک طرف اعلیٰ طبقے کے جرنیل امریکہ سے ڈالر بٹورنے میں مصروف ہیں تو دوسری جانب تھرڈ کلاس فوجی افسران ملکی وسائل اور عوامی حقوق ہڑپ کرنے میں مگن ہیں۔ یہ صورتحال اس بات کی بین دلیل ہے کہ دھشتگردی کے نام پر مسلط اس جنگ کا مقصد عوام کو کچل کر ان کے وسائل پر قبضہ جمانا ہے۔

تیسری مثال:

قبائلی پٹی پر پاکستانی فوج نے دھشتگردی کے نام پر عمومی تباہی مچائی اور لاکھوں کی عوام کو ھجرت پر مجبور کردیا۔ جیٹ طیاروں ، ہیلی کاپٹرز ، امریکی ڈرونز اور توپخانہ کے بے دریغ استعمال سے لاکھوں آبادیاں ویرانوں میں بدل ڈالیں، سینکڑوں مساجد، مدارس اور اسکولوں و ہسپتالوں کو خالی کروا کر فوجی چھاؤنیاں بنا دی گئیں، اور اپنے ہی ملک میں لاکھوں لوگوں کو متاثرین بنا کر کیمپوں میں ذلت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کردیا گیا، اور ستم بالائے ستم یہ کہ ان متاثرین کے نام پر ریاستی ادارے عالمی خیراتی اداروں سے ڈالرز اور وسائل جمع کرکے اپنی جیبیں بھر نے میں مشغول ہیں ۔

چوتھی مثال:

فوجی ادارے ” آئی ایس پی آر” کے سابق ترجمان بابر افتخار نے جنوری ۲۰۱۸ء میں ایک پریس کانفرنس میں یہ انکشاف کیا کہ آپریشن رد الفساد کے تحت ریاستی اداروں نے ڈیڑھ لاکھ سے زائد آپریشنز کئے ، حالانکہ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب فوج نے کھل کر اس بات کا اعلان کیا تھا کہ دھشتگردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے، اور حال ہی میں فوج کے ترجمان احمد شریف نے ۲۳ ہزار سے زائد آپریشنز کا اعتراف کرکے ایک اور فوجی آپریشن عزم استحکام کا بھی اعلان کیا، ان آپریشنز کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو ۱۱۲ آپریشنز یومیہ بنتے ہیں۔ عزم استحکام کے اعلان کے بعد پوری پاکستانی قوم بشمول تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں نے اسے مکمل طور پر مسترد کردیا، کیونکہ اب عوام میں اس بات کا شعور آچکا ہے کہ ان آپریشنز کا ہدف نہتے عوام ہی ہوں گے۔

اب قابل غور بات یہ ہے کہ اگر ہر تیسرے آپریشن میں ایک فرد کو گرفتار اور ایک فرد کو مقتول تسلیم کرلیا جائے، کیونکہ ان آپریشنز میں مٹھائیاں تقسیم نہیں ہوتیں بلکہ اندھا دھن فائرنگ، بمباریاں اور توپ خانے اور ٹینکوں کا کھل کر استعمال ہوتا ہے، تو ان سوا لاکھ آپریشنز میں پچاس ہزار سے زائد افراد گرفتار اور پچاس ہزار سے زائد مقتول ماننے ہی پڑیں گے۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ریاستی ادارے اگر لاکھوں کی تعداد میں پاکستان کے اندر دھشتگردوں کے خلاف آپریشنز کرتے ہیں تو پھر کیسے اتنی بے شرمی سے دھشتگردوں کی افغانستان سے دراندازی کا الزام امارت اسلامیہ افغانستان پر عائد کر سکتے ہیں؟

مجھے ریاستی اداروں کے ایسے بیہودہ دعوؤں پر ہنسی آتی ہے کہ جب یہ کہتے نہیں تھکتے کہ دھشتگرد افغانستان کی سرزمین استعمال کررہے ہیں۔

قارئین تھوڑا غور کریں کہ ریاست پاکستان کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم نے ۲۷ سو کلومیٹر طویل سرحد پر ساڑھے پانچ سو ملین سے زائد امریکی ڈالرز خرچ کرتے ہوئے خاردار تاریں لگا کر سرحد کو مکمل طور پر سیل کردیا ہے، اب چمن اور طورخم کے راستوں کے علاوہ نہ تو کوئی افغانستان جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی افغانستان سے پاکستان کی سرزمین پر دراندازی کرسکتا ہے۔ اور اس پورے سرحدی خطے کی نگرانی کے لئے آٹھ سو چھوٹے بڑے ڈرون طیارے مختص کیے گئے ہیں، جن میں وقتاً فوقتاً امریکی ڈرونز بھی حصہ لیتے ہیں، نیز پوری سرحد پر قدم قدم پر چیک پوسٹیں، جدید تھرمل کیمرے اور لائٹس نصب کی گئی ہیں، اور لاکھوں کی تعداد میں فوج اور ایف سی تعینات کی گئی ہے، تو ان تمام انتظامات کے باوجود دھشتگرد کیونکر سرحد پار کرسکتے ہیں؟

میرے خیال میں اس الزام کا مقصد اپنی ناکامی کا ملبہ امارت اسلامیہ پر ڈالنے، عوام کو الّو بنانے اور امریکہ سے مزید ڈالر بٹورنے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

ان شواہد کے ذکر سے میرا مقصود اصلی یہ ہے کہ جو فوج دشمن کے مقابلے سے عاجز آکر ریاستی قوت اپنی عوام پر استعمال کرنے لگے، جبکہ جنگ کو ایک کاروبار سمجھے، تو اس کی شکست اور ذلت میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ اب بھی وقت ہے کہ ریاستی ادارے ہوش کے ناخن لیں اور عوام کے خلاف جنگ سے نکل آئیں، ورنہ وہ دن دور نہیں کہ یہ سیاسی اشرافیہ اور فوجی ٹولہ بھی بنگالی وزیراعظم حسینہ واجد کی طرح عوامی مزاحمت کا سامنا کرکے بھاگنے پر مجبور ہو جائے گا۔

Author

Exit mobile version