شہادت اُس روحانی ملاقات کا آغاز ہے جس کی تمنا ہر مؤمن مسلمان کے دل میں موجود ہے اور ایک ایسی نورانی منزل جہاں تک پہنچنے کے لیے تھکاوٹ اور پیاس کی بنا پر کوئی شخص کانٹوں بھرے راستوں پر چلنے کو گوارا کرلیتا ہے، اگر ہم پیغمبروں اور صحابہ کرام کی شہادتوں پر نظر ڈالیں، تو اس کے بجائے کہ مسلمانوں کے حوصلے پست ہوں، ان کے ارادے مزید مضبوط ہو جاتے، ان کی کوششیں مزید منظم شکل اختیار کرتیں تاکہ دشمن کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔
جب غزوۂ احد میں حضرت حمزہ رضي الله عنه کی شہادت کا دردناک واقعہ پیش آیا تو کچھ مسلمان مایوس اور دل شکستہ ہوگئے، لیکن بہادر مسلمانوں کے دل مزید مضبوط ہوگئے، اسلام کی فتح اور اپنے شہید ساتھی (حضرت حمزہ رضی الله عنه) کا بدلہ لینے کی آگ ان کے سینوں میں جلنے لگی اور وہ اس قدر لڑے کہ بے شمار مشرکین کو جہنم کی گڑھے میں پھینک دیا۔
عین اسی طرح اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دل دہلا دینے والی اور ناقابل برداشت وفات پر غور کریں، تو یہ گمان کیا جا رہا تھا کہ انسانیت کے عظیم رہنما اور سپہ سالار کی وفات کے بعد دنیا دوبارہ تاریک اندھیروں اور جاہلیت کی بلند ترین حالت میں غرق ہو جائے گی لیکن پھر بھی یہ اللہ کی سنت ہے کہ نظام کی بقا افراد پر منحصر نہیں ہوتی۔
ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ نے نظامِ حکومت اور شریعت کے تحفظ کے لیے افراد کو منتخب کیا ہے، جنہوں نے بے مثال قربانیاں پیش کی ہیں اور دشمن پر یہ واضح کردیا کہ اسلامی نظام کے تحفظ اور بقا کے لیے صرف ایک فرد نہیں، بلکہ ہمیشہ مجددین پیدا ہوتے رہیں گے اور یہ بزدل دشمن کان کھول کر سن لیں! اسلامی نظام کی بقا کے لیے اس صف کا ہر فرد پہاڑ کی طرح کھڑا ہے اور جب تک ان کے جسموں میں ایک بوند خون بھی باقی ہے، وہ آخری سانس تک اس نظام و ملک کا دفاع کرتے رہیں گے اور ہر قسم کے دشمنوں کی جڑیں کاٹ ڈالیں گے۔
یہ حقیقت محاذ کے مجاہدین کو بہت اچھی طرح سے معلوم ہوتی ہے کہ اپنے ساتھی کی شہادت کی اور اس کا لاشہ جتنا غم وافسوس کا سبب بنتا تھا، اتنا ہی وہ ایک دوسرے کو مبارکبادیں اور کامیابیوں کی خوشخبریاں دیتے تھے اور ہر مجاہد کا ضمیر اس کو ملامت کرتا کہ اب سکون کی سانس لینے کے بجائے اپنی جان، اولاد اور اپنا مال داؤ پر لگا کر ہر قیمت پر دشمن سے انتقام لیا جائے، تاکہ اللہ تعالیٰ کی زمین پر شہید کا خون ضائع نہ ہو اور اس کے بدلے میں اسلامی نظام قائم ہو اور اس کی بقا کے لیے نہ ختم ہونے والی کوششیں کی جائیں۔
ملک عزیز افغانستان کی گذشتہ بیس سالہ تاریخ پر نظر ڈالیں جو ہمارے سامنے گزری، تو اس میں امراء، رہنماؤں، علماء، نوجوانوں، بیٹیوں، ماؤں، بہنوں، بھائیوں، بچوں اور بڑوں کی شہادتوں نے ہماری قوم اور نظام کو کمزورکیا، نہ ہی ان کے ارادوں میں کوئی تبدیلی آئی، بلکہ ان کی ایمانی طاقت مزید بڑھ گئی اور پوری ایمانی غیرت و قوت کے ساتھ دین و وطن کا دفاع کرنے کے لیے انہوں نے اپنے سر ہتھیلی پر رکھ دیے؛ شہادت ایک نظام کی طاقت و استحکام، عوام کے ایمانی غیرت اور دشمن کی شکست کا سبب بنتی ہے۔