شہید ابو یوسف رحمہ اللہ کی یاد میں

مولوی عبد الصبور (ابو دُجانه)

ہم شہید ابو یوسف رحمہ اللہ کے کس کس کارنامے کو یاد کریں، جبکہ ان کے ہر کارنامے پر ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ ۶ اکتوبر ۲۰۲۴ء جانباز شہید کی شہادت کی چھٹی برسی ہے، لہذا میں نے لرزتے ہاتھوں سے قلم اٹھایا تاکہ ان کے حوالے سے کچھ لکھوں۔

آج شہید کی جانب سےغزنی کی جیل توڑنے کا کارنامہ آپ کے سامنے رکھوں گا:

میں غزنی شہر کے مرکز میں گوریلوں اور جنگی گروپ کا انچارج تھا، ہم ایک دن گوڑیان گاؤں کی مسجد گئے، وہاں ہماری ملاقات مسجد کے سامنے شہید ابو یوسف سے ہوئی، وہ اپنی موٹرسائیکل پر آئے تھے، انہوں نے گاؤں کے باغات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے اس طرف آنے کا کہا، میں نے اپنی بندوق لی اور ان کے ساتھ چلنے لگا۔

راستے میں اس نے مجھے پشتو میں ایک شعر سنایا:

خدایا! مجھے کیسا نصیب عطا کیا گیا!
میرے دوستوں کو پھول کی طرح کھلا دیا (شہید بنالیا) اور میں ابھی تک تنے پر قائم (زندہ) کلی ہوں!

شعر کہتے ہی وہ ہنسا اور مجھ سے کہا، کیا آپ نے شعر کا مطلب سمجھا؟

میرے جواب سے پہلے اس نے مجھ سے کہا، اس شعر سے میرامقصد شہادت ہے، میرے بہت سے دوست شہید ہوچکے ہیں اور میں ابھی تک زندہ ہوں۔

مجھے بہادر شہید کی یہ بات سن کر دکھ ہوا اور دل ہی دل میں کہا کہ یہ آرزوتو ہمارے یتیم ہونے کے سوا کچھ نہیں۔

جب ہم مقررہ جگہ پر پہنچے تو وہ بے تکلف مٹی کے ڈھیر پر بیٹھ گئے، وہ مجھ سے کہنے لگے: میرے دل میں ایک منصوبہ ہے، اگر اللہ نے اسے کامیاب کر دیا توبہت مزہ آئے گا اورمیں مطمئن ہوں کہ اللہ اسے ضرور کامیاب کرے گا، میں حیران ہوا کہ اس کا کیا منصوبہ ہوگا؟

وہ میری حیرت پر ہنسا اور کہا: میرا منصوبہ یہ ہے کہ غزنی کی جیل کو توڑ کر مجاہدین کو آزاد کرواؤں۔

میرا دوست (عمر) جو میرے ساتھ موٹرسائیکل چلاتا تھا، اس نے مجھے کہا کہ عمر کو اس کام کے لیے میرے حوالے کردو، کیونکہ وہ ریکی کرنے اور ان راستوں کا ماہر ہے، وہ جب ایک بار کسی راستے سے گزرتا ہے، اسے کبھی چوک نہیں ہوتی، اس حوالے سے انہوں نے ایک لطیفہ بھی سنایا۔

تفصیل سے اعراض کرتے ہوئے مختصرا بتاتا ہوں:

ریکی کا منصوبہ:

شہید ابو یوسف تقبلہ اللہ کے حملوں کی کامیابی کا ایک اہم راز یہ تھا کہ وہ اپنی کاروائی اور ریکی میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے۔ انہوں نے ریکی پورے دو ہفتے کا وقت لگا کر مکمل کرلی۔ حملے کے لیے ذاتی طور پر اطمینان حاصل کرنے کے واسطے آخری دن صبح سویرے عوامی گاڑی میں سوار ہوکر جیل کے اطراف اور اس سے ملحقہ علاقے کا تفصیلی جائزہ لیا۔

حملے کی تیاری:

غزنی کی جیل جو غزنی اور پکتیکا کی سڑک کے کنارے تھی جہاں بہت سی فوجی پوسٹیں تھیں اوردشمن کی آمد ورفت کافی زیادہ تھی، اس لیے ظاہر تھا کہ اس حملے میں کافی مشقت و قربانیوں کی ضرورت تھی۔ موقع پر موجود سینئرساتھیوں جیسے شہید عاکف اور ناجح مولوی صاحب سے مشورہ کرنے کے فوری بعد اپنے گروپ کے ساتھیوں کو جمع کرکے ان سے کہا: ہم ایسی جگہ کاروائی کرنے جا رہے ہیں جہاں واپس زندہ آنے سے زیادہ شہادت کی امید زیادہ ہے، ہر ساتھی کو اختیار ہے کہ جو اس میں حصہ نہیں لینا چاہتا وہ کہہ دے، میں ناراض نہیں ہوں گا۔
جس کے جواب میں تمام ساتھی یک آواز ہو کر لبیک کہتے ہوئے کھڑے ہوگئے، اس مرحلے پر سوائے شہید ابو یوسف تقبلہ اللہ کے ساتھیوں کے دیگر مجاہدین عمومی سڑک پار کرنا نہیں چاہتے تھے کیونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ شہر میں اتنے بڑے پیمانے پرحملہ کیا جا رہا ہو۔

کاروائی کا آغاز:

جیل توڑنے اور قیدیوں کو آزاد کرنے کی ساری ذمہ داری بہادر شہید پر ڈال دی گئی نیزشہید تقبلہ اللہ نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ جیل میں صرف فدائی ساتھی داخل ہوں گے، جیل کے دروازے کے دائیں جانب ایک بڑی چوکی اور جیل کے دروازے کے ٹاور کو نشانے پر رکھنا میری ذمہ داری تھی، حذیفہ شہید (منصور سعید) بھی میرے ساتھ تھے جو ہشتاد دو کے ماہرتھے۔

منصوبے کے مطابق ہماری کارروائی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ فدائی اپنے کار بم کو جیل کے مرکزی دروازے پر نہیں لے جاتا اوراسے دھماکے سے اڑا نہیں دیتا، جیل کے مرکزی دروازے کے بائیں جانب کی چوکی فاروق امیر صاحب کو سونپی گئی، اس وقت تین صوبوں (زابل، غزنی اور میدان وردگ) کے عسکری کمانڈر شہید پیر آغا صاحب تھے، گھات لگانے کا کام ان کے یونٹ کی ذمہ داری ہوتی تھی، لہذا دو جگہوں پر مضبوط کمیںیں لگائی گئیں، ان میں سے ایک ملی فوج کے لیے لگائی گئی اور دوسری کمین پیرزادہ گاؤں کے قریب لگائی گئی۔

منصوبے کا دوسرا حصہ:

شہر کے گوریلا ساتھیوں نے دشمن کی کمک روکنے کے لیے مناسب جگہوں پر بارودی سرنگیں بچھائیں، جیل کے سامنے ایک بڑی ندی تھی، جس میں شہید ابو یوسف اور عاکف شہید جن کے پاس ہشتاد دو تھے، ان دونوں کے ساتھ تعرضی فدائی اور دیگر ساتھی موجود تھے۔

یہاں منصوبہ یہ تھا کہ عام سڑک سے جیل تک ایک کچا راستہ تھا، اور اس سڑک پر چوکیاں اور جیل کا ایک بڑا ٹاور تھا۔ شہید عاکف نے ہشتاد دو کے ذریعے حملہ کرنا تھا اورحافظ عمر فدائی نے گاڑی کے لیے بیرئیر ہٹانے تھے اوراس کے متصل ہی دیگر ساتھیوں نے جیل کے پیچھے موجود چوکیوں اور ٹاوروں پرکاروائی شروع کردینی تھی۔ اس دوران شہید ابوبکر فدائی نے جیل کے مرکزی دروازے اور وہاں موجود حفاظتی ٹاور کو اپنی گاڑی سے اڑانا تھا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ فدائی کار بم دھماکے کا اس حد تک اندازہ کیا گیا تھا کہ اس کی تباہی مذکورہ مقدار و مقام سے زیادہ نہ ہوکیونکہ اندرموجود قیدیوں کے کمروں اور سلاخوں کے گرنے کا خطرہ تھا۔

موصوف شہید رحمہ اللہ نے ہر ذمہ دار ساتھی کے لیے مخصوص کمیونیکیشن نمبر بنائے اور ذمہ داروں کو دئے تھے کہ آپس میں رابطے اسی نمبر سے کیے جائیں گے چنانچہ شہید رحمہ اللہ نے واکی ٹاکی پر آواز دی:

مجاہدین کیا میری آواز سن رہے ہیں؟

سب نے اس بات کو یقینی بنایا کہ رابطہ ٹھیک ہے، شہید رحمہ اللہ نے پکارا کہ مقررہ ساتھی اپنا کام شروع کردیں، اس کے ساتھ ہی اللہ اکبرکا نعرہ لگایا گیا۔

تمام ساتھیوں نے بھرپور انداز میں کاروائی کا آغازکردیا، شہید عاکف نے ہشتاد دو کے ذریعے اپنے ہدف کو نشانے پر رکھ لیا اور حافظ عمر بھی مرکزی دروازے سے پہلے موجود تمام بیرئیرز کو ہٹھانے میں کامیاب ہو گئے۔ فدائی کار بم دھماکہ بھی مقررہ جگہ پر ہوا اگرچہ ٹاور کے محافظوں نے فدائی کو شدید فائرنگ کی زد میں لے لیا تھا لیکن پھر بھی وہ اپنے ہدف تک اطمینان سے پہنچ گیا۔

اس کے بعد موصوف شہید رحمہ اللہ نے تمام ساتھیوں سے رابطہ کیا اور جیل کے مرکزی دروازے کی طرف فائرنگ روکنے کا کہا کیونکہ اس وقت فدائی اور حملہ آور ساتھی جیل میں داخل ہو رہے تھے، شہید رحمہ اللہ خود جیل میں داخل ہوئےاور قیدیوں کو جیل سے نکلنے کے لیے محفوظ راستے کی رہنمائی کرتے رہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آزاد ہونے والے قیدیوں میں وہ فدائی بھی تھے جنہیں غلام حکومت کے صوبہ غزنی کے پولیس کمانڈر زاہد کی خیانت کے نتیجے میں گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

دشمن کی نقل و حرکت کو روکنا:

تمام چوکیوں پرمنصوبے کے مطابق دشمن کو ہر جگہ اس قدر مصروف رکھا گیا تھا کہ وہ کسی اور کی مدد کرنے کے بجائے صرف اپنی جان بچانے کی فکر میں لگے ہوئے تھے، گھات لگائے ہوئے ساتھیوں کو جو کام سونپا گیا تھا، انہوں نے بہادری سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں، انہوں نے مختلف جگہوں پر دھماکے بھی کیے اور پیرزادہ علاقے میں ایک ٹینک کو بھی نشانہ بنایا، شہر کے گوریلہ مجاہدین نے بھی موقع کی مناسبت سے دھماکے کیے۔

لیکن اس کے باوجود گھات لگائے دستوں کے حملوں سے بچ کر کئی ٹینک جیل کی طرف پہنچ گئے، جس کی وجہ سے ہمارے بہت سے ساتھی محصور ہو گئے لیکن اس وقت تمام قیدی نکل چکے تھے اور مجاہدین ان کے پیچھے چلے جا رہے تھے، شہید ابو یوسف تقبلہ اللہ اپنے ساتھیوں میں سے آخری مجاہد تھے جو دشمن کے ٹینکوں کے درمیان سے بحفاظت نکلنے میں کامیاب ہوئے۔

منصوبے کی کامیابی:

یہ اتنا کامیاب منصوبہ تھا کہ اس میں آدھا گھنٹہ بھی نہیں لگا مگراس کی برکت سے ۴۵۰ قیدی جن میں اکثریت مجاہدین کی تھی انہیں رہا کروا لیا گیا اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے مطابق ان سب کو پیدل اور بعد ازاں گاڑیوں کے ذریعے اندڑھ کے علاقے میں منتقل کر دیا گیا اور صبح تک طے شدہ آپریشن کامیابی سے مکمل کرلیا گیا۔

آخر میں یہ کہوں گا کہ شہیدابو یوسف تقبلہ اللہ کو اتنے اعلیٰ کارنامے سرانجام دینے کے باوجود خود نمائی و دکھاوا پسند نہ تھا، اگلی صبح انہوں نے ضلع اندڑھ کے مسئول مولوی عبدالہادی زاہد سے بات کی کہ وہ قیدیوں کے کوائف کا بندوبست کریں اور انہیں اطمینان دلایا کہ انہیں اپنے اپنے ٹھکانوں تک پہنچایا جائے گا، پھر ایسا ہی ہوا اور ان تمام قیدیوں کو ان کے گھروں تک پہنچا دیا گیا۔

اللہ تعالیٰ ان کی شہادت کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔

Author

Exit mobile version