قریشِ مکہ کی تیاری:
ضمضم غفاری کی چیخ و پکار مکہ کی گلیوں اور بازاروں میں پہنچیں، قریش متحرک ہو گئے، ان کے جذبات اُبھرے اور انہوں نے کہا: "یہ کوئی ابن حضرمی کا قافلہ تو نہیں ہے جسے تم لوٹ لو، اللہ کی قسم ہمارا معاملہ تم سے سخت ہوگا۔” سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یا تو خود جنگ کے لیے جائیں گے یا اپنے نمائندے بھیجیں گے۔ انہوں نے زیادہ سے زیادہ بڑا لشکر تیار کیا، صرف ابو لہب نے اپنا قرضدارعاص بن هشام بھیجا، اور اپنے ساتھ دیگر قبائل کو بھی اپنے ساتھ ملایا۔
قریش کی بنو بکر قبائل کے ساتھ دشمنی تھی، جب وہ بدر کی طرف روانہ ہوئے تو انہیں خوف تھا کہ کہیں ان کے پیچھے سے کوئی حملہ نہ کر دیں، لیکن شیطان سراقہ بن مالک کے روپ میں ان کے سامنے آیا اور ان سے کہا کہ بنو بکر کبھی بھی تمہاری مرضی کے خلاف عمل نہیں کریں گے۔ سراقہ کی باتوں نے قریش کو یقین دلا دیا، اور وہ موت کی طرف اپنے قدم مزید تیز کر کے بڑھنے لگے۔
لشکرِ مکہ کی تعداد اور ساز و سامان:
یہ فوج غرور کے ساتھ مکہ سے نکلی، جیسے کہ متعال رب نے ان کے بارے میں فرمایا:
"ولا تکونوا کالذین خرجوا من دیارهم بطرا ورئاء الناس”
ترجمہ: اور تم ان لوگوں کی طرح نہ بننا جو اپنے گھروں سے تکبر اور لوگوں کو دکھانے کے لیے نکلے۔”
اس لشکر کی تعداد تقریباً ہزار جنگجوؤں کے قریب تھی، ان کے پاس ۷۰۰ اونٹ اور ۱۰۰ گھوڑے بھی تھے، ہر گھوڑے پر ایک زرہ وخود سے لیس جنگجو تھا، ان کے ساتھ سرودگر بھی تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کی ہجو میں اشعار پڑھتے تھے۔ زرہ والے جنگجوؤں کے علاوہ ۶۰۰ دیگر زرہ پوش جنگجو اس لشکر میں شامل تھے، اور اس کا کمانڈر ابو جهل تھا۔ یہ تمام لوگ اپنے تکبر کے ساتھ بدر کی طرف روانہ ہوئے تاکہ لشکرِ اسلام کو جزیرہ نما عرب سے مٹا دیں۔
لشکرِ اسلام کی نقل و حرکت اور راستے میں پیش آنے والے واقعات:
جب لشکر مدینہ سے روانہ ہوا، تو راستے میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے جن میں ہمارے لیے بہت اسباق پنہاں ہیں۔
۱۔ جب لشکر ابی عنبه کے کنویں پر پہنچا، جو مدینہ سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر ہے، تو سالارِ لشکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لشکر کا معائنہ کیا، اور کچھ صحابہ کرام کو واپس مدینہ بھیج دیا کیونکہ ان کی عمر کم تھی اور وہ دشمن کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے، ان میں براء بن عازب اور عبد اللہ بن عمر بھی شامل تھے، جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس مدینہ بھیج دیا۔
۲۔ لشکر میں ایک مشرک بھی تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی لشکر سے نکال دیا اور فرمایا: "ارجع فلن استعین بمشرک” ترجمہ: تم واپس چلے جاؤ، میں مشرک سے مدد نہیں لوں گا، وہ بہت کوشش کرتا رہا کہ خود کو لشکر میں شامل کرائے، لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکا، آخرکار وہ اسلام لایا اور لشکرِ اسلام کا ایک سپاہی بن گیا۔
لشکرِ اسلام ابھی صفراء نامی علاقے تک پہنچا نہیں تھا کہ اس دوران دو صحابہ کرام بسبس بن عمر اور عُدی بن ابی الرغباء کو قافلے کی حالت معلوم کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ جب لشکر صفراء نامی علاقے پہنچا، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ قریش کا ایک بڑا لشکر مکہ سے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے نکلا ہے کہ قافلے کا تحفظ ہو سکے۔
قافلہ بچالیا گیا:
ابو سفیان بہت چالاک تھا، وہ عمومی راستے سے بدر کی طرف روانہ تھا۔ جب وہ بدر کے قریب پہنچا، تو وہ خود بدر کے مقام پر آیا تاکہ لشکرِ اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرے۔ اس سے پہلے بسبس اور عُدی وہاں پہنچ چکے تھے، اور بدر کے چشمے سے انہوں نے مشکیں بھریں اور اپنے گھوڑوں کو پانی پلایا۔ جب ابو سفیان وہاں پہنچا، تو اس نے مجدی بن عمرو سے پوچھا کہ کیا یہاں کسی کو دیکھا ہے؟ مجدی نے جواب دیا کہ نہیں، بس دو سوار نظر آئے، انہوں نے یہاں آ کر اپنے اونٹوں کو پانی پلایا اور پھر چلے گئے۔
ابو سفیان نے اونٹوں کے پاؤں کے نشانات دیکھے، اور ان نشانات کو دیکھتے دیکھتے اسے وہاں اونٹوں کی مینگنیاں ملیں، وہ اٹھا کر اس نے توڑیں، ان مینگنیوں سے کھجور کی گٹھلیاں نکلیں۔ جس سے اسے پتہ چلا کہ یہ یثرب (مدینہ) کی کھجوریں ہیں، اور اسلامی لشکر یقینی طور پر یہاں موجود ہے۔ پھر ابو سفیان نے مغربی سمت میں سمندر کے کنارے کا راستہ اختیار کیا اور بدر کے عمومی راستے کو بائیں طرف چھوڑ دیا، اس طرح اس نے اپنی قافلے کو لشکرِ اسلام کے ہاتھوں سے بچا لیا۔