مکے کا لشکر واپسی کے ارادے سے باز آ گیا:
جب قافلہ محفوظ ہو گیا، تو ابو سفیان نے مکے کے لشکر کو خبر بھیجی کہ تم قافلے کی حفاظت کے لیے نکلے تھے، اور اب قافلہ محفوظ ہے، لہٰذا واپس مکہ چلے جاؤ۔ جب یہ خبر لشکر تک پہنچی تو کچھ سرداروں کی رائے تھی کہ ہمیں مکہ واپس لوٹ جانا چاہیے، لیکن اکثریت کی رائے یہ تھی کہ ہم بدر تک جائیں، تاکہ مسلمانوں کو یہ دکھا سکیں کہ قریش کے قافلے پر حملہ کرنا آسان کام نہیں۔
ابو جہل نے انتہائی غرور کے ساتھ کہا: "ہم ہرگز مکہ واپس نہیں جائیں گے، بلکہ بدر جائیں گے، وہاں اونٹ ذبح کریں گے، لوگوں کو کھانا کھلائیں گے، شراب کی محفلیں سجائیں گے اور گانے بجانے کی محفلوں کو گرم کریں گے، تاکہ عرب کے دلوں میں ہماری شان و شوکت اور رعب و دبدبہ بیٹھ جائے۔”
اس کے باوجود کچھ لوگوں نے واپس جانے کی کوشش کی، لیکن ابو جہل نے انہیں اجازت نہ دی، اور لشکر بدر کی طرف روانہ ہو گیا۔ بنو زہرہ قبیلہ، جس کے تقریباً تین سو افراد تھے، مکہ واپس لوٹ آیا، جس کی وجہ سے لشکر کی تعداد کم ہو کر تقریباً ایک ہزار کے قریب رہ گئی۔
بنو زہرہ قبیلے کے سردار اخنس بن شریق تھے، جنہیں اس فیصلے کے بعد قبیلے میں خاص مقام حاصل ہوا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشاورت کا اجلاس منعقد کیا، کیونکہ حالات نہایت نازک تھے۔ ایک مکمل طور پر مسلح اور ساز و سامان سے لیس لشکر، ایک بے سروسامان اور غیر مسلح لشکر کے مقابلے کے لیے نکلا تھا۔ ان کا ارادہ تھا کہ اسلام کے چراغ کو بجھا دیں، اور مدینہ میں تیزی سے پھیلنے والی اسلام کی روشنی اور عظمت کو مٹا دیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی ذفران نامی مقام پر تھے جب انہیں لشکر کی نیت کا علم ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورے کے لیے مجلس منعقد کی، صحابہ کرام کو جمع کیا اور فرمایا: "مجھے مشورہ دو!”
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور نہایت عمدہ گفتگو کی، غیرت و بہادری کے ایسے الفاظ بیان کیے جنہوں نے سب کے حوصلے بلند کر دیے۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا: "مجھے مشورہ دو!” عمر فاروق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرح غیرت و شجاعت کی باتیں کیں۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار فرمایا: "مجھے مشورہ دو!” اس پر مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور ایسا شاندار خطبہ دیا کہ ہر کمزور حوصلے کو مضبوط کر دیا، اور تاریخ کے صفحات ان کے الفاظ سے درخشاں نظر آتے ہیں۔
ان کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا:
"اے اللہ کے رسول! وہی کریں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے۔ ہم بنی اسرائیل کی طرح نہیں کہ آپ سے کہیں: ’’آپ اور آپ کا رب جائیں اور جنگ کریں، ہم یہاں بیٹھے رہیں گے۔ بلکہ ہم آپ سے کہیں گے کہ آپ اور آپ کا رب جائیں اور جہاد کریں، ہم بھی آپ کے ساتھ ہوں گے! ہم آپ کے دائیں، بائیں، آگے اور پیچھے ہر طرف سے دشمن سے لڑیں گے۔”
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان الفاظ کو سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقداد رضی اللہ عنہ کے لیے خیر و برکت کی دعا فرمائی۔
ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس گفتگو کے بعد ہر صحابی کی خواہش تھی کہ کاش یہ الفاظ میری زبان سے ادا ہوئے ہوتے، کیونکہ ان سب کے دلوں میں یہی جذبات تھے، لیکن اظہار کی سعادت مقداد کو نصیب ہوئی۔ غیرت و حمیت کے یہ جذبات ہر صحابی کے دل میں موجزن تھے اور ہر کوئی یہ آرزو کر رہا تھا کہ کاش سب سے پہلے میں ان خیالات کو بیان کرتا۔
یہ تینوں صحابہ کرام مہاجرین میں سے تھے، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا: ’’مجھے مشورہ دو‘‘!
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ تھا کہ انصار کی رائے بھی معلوم ہو، تاکہ ان کے دل کی باتیں بھی معلوم کرسکیں۔ اس پر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انصار کی طرف سے نہایت حیرت انگیز اور پرجوش باتیں کیں۔
ان کی گفتگو تفصیلی تھی، لیکن ایک مقام پر انہوں نے کہا:
"اگر آپ ہمیں حکم دیں کہ ہم سمندر میں کود جائیں تو ہم بلا جھجک کود پڑیں گے، ہم میں سے کوئی بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ ہمیں دشمن کے ساتھ جہاد کرنا محبوب ہے، اور ہم اللہ سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں ایسا عمل کرنے کی توفیق دے گا جس سے آپ خوش ہو جائیں گے۔”
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں سنیں تو فرمایا:
"چلو اور خوشخبری حاصل کرو! اللہ نے مجھ سے دو گروہوں میں سے ایک (یا تو قریش کا لشکر یا ابو سفیان کا قافلہ) کا وعدہ کیا ہے۔
اللہ کی قسم! مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے میں قریش کے سرداروں کے قتل ہونے کی جگہیں دیکھ رہا ہوں۔”
اس کے بعد لشکر ذفران سے روانہ ہوا۔ انہوں نے خبیرتین، حنان اور اصافر کے پہاڑوں کو عبور کیا اور رمضان المبارک کی سترہویں شب، جمعہ کے دن بدر کے مقام پر پہنچے۔ وہاں بدر کے قریب ہی پڑاؤ ڈالا۔