افغانستان جنگجوؤں اور شیروں کی سرزمین اور سلطنتوں اور حملہ آوروں کا قبرستان ہے۔ افغانستان نے ہمیشہ ایسے مجاہدین اور ابطال کو اپنی گود میں پالا ہے جنہوں نے حملہ آوروں اور قبضہ گروں کے خلاف اپنی جانیں قربان کیں اور ان میں سے ایک وکیل محمد رستم بلال کلنگاری شہید بھی ہیں۔
شہید محمد رستم ولد محمد طاہر ولد مولوی عصمت اللہ ۱۹۸۶ء میں صوبہ لوگر کے صدر مقام کے قریب گاؤں کلنگار میں ایک مجاہد اور پرہیزگار گھرانے میں پیدا ہوئے۔
محمد رستم شہید کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے خاص ذہانت اور ہوشیاری عطا کی گئی تھی، اور وہ اپنی جوانی میں علاقے کے لوگوں کے درمیان بہت محبوب اور مشہور تھے۔
بلال شہید ۱۹۹۴ء میں دینی علوم کے حصول کے ساتھ سکول داخل ہو گئے اور ۲۰۰۶ء میں کلنگار کے جہادی ہائی سکول سے فارغ التحصیل ہوئے۔ شہید بلال ۲۰۰۷ء میں افغان کورین انسٹی ٹیوٹ میں داخل ہوئے اور ۲۰۰۹ء میں اس انسٹی ٹیوٹ سے بھی فارغ التحصیل ہوئے۔ انہیں عصری تعلیم سے محبت تھی، ۲۰۱۰ء میں انہوں نے میدانِ علم میں ایک اور قدم بڑھایا اور ۲۰۱۴ء میں دعوت یونیورسٹی سے فیکلٹی آف لاء اینڈ پولیٹیکل سائنسز سے اکیڈیمک کیڈر کی حیثیت سے فارغ ہوئے۔ تعلیم کی غرض سے انہوں نے کئی علمی و ثقافتی اجتماعات اور سیمیناروں میں بھی شرکت کی۔
دینی اور جدید تعلیم میں مشغول ہونے کے ساتھ انہیں جہاد اور اللہ کی راہ کے مجاہدین سے بے پناہ محبت اور دلچسپیت تھی۔ ۲۰۰۸ء میں مولوی محمد الہ فاروقی شہید کی قیادت میں جہاد کی مقدس صف میں حملہ آوروں اور قبضہ گروں کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔
دورانِ جہاد انہوں نے ایسے کارنامے پیچھے چھوڑے ہیں کہ جنہیں آنے والی نسلیں بطورِ افتخار یاد رکھیں گی۔
بلال وہ شہید تھا جو شہادت کا پیاسا اور خواہشمند تھا، ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے شہادت مانگتا رہتا تھا۔
ہمیں اس کے محاذ کے ایک ساتھی نے ہمیں بتایا:
"آدھی رات کا وقت تھا اور ہم امریکی بکتر بند گاڑیوں کے کانوائے کے انتظار میں تھے، بلال شہید میرے پہلو میں بیٹھا تھا کہ اچانک رونے لگا۔ ہم سب پریشان ہو گئے اور اس سے پوچھنے لگے کہ کیوں روتے ہو؟
اس نے کہا: میں اللہ سبحان وتعالیٰ کی خاطر رو رہا ہوں، شہادت کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ سے شہادت کی دعا مانگ رہا ہں۔”
محمد رستم بلال شہید نے اپنے خاندان کے ساتھ آرام و سکون کی زندگی گزارنے کی بجائے خوف و خطر سے بھرپور زندگی، جس میں ہر لحظہ موت و شہادت کا امکان موجود ہوتا ہے، قبول کر لی۔
۲۰۱۳ء میں بلال شہید اپنے دو ساتھیوں سمیت آدھی رات کو آنے والے چھاپے میں امریکیوں کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے اور جیل بھیج دیے گئے۔ جیل میں سختیاں، اذیتیں اور تکالیف برداشت کیں اور رہائی کے بعد پھر اللہ کی راہ میں جدوجہد جاری رکھی اور ہمیشہ اس راہ میں شہادت کے آرزو مند رہے۔
ہمیں ان کے ایک اور ساتھی نے بتایا:
"دشمن کی نگرانی پر مامور ساتھی نے اطلاع دی کہ امریکی فوج کا کانوائے کابل سے لوگر کی جانب روانہ ہو چکا ہے۔ بلال شہید وہ پہلے شخص تھے جو پورے حوصلے اور اعتماد سے گھات لگانے کے لیے اٹھے، ہم لوگر کے صدر مقام کے قریب ایک گاؤں علی خان کی سڑک پر روانہ ہو گئے، دشمن کے ساتھ جنگ اور فتح اور دشمن کو جانی و مالی نقصان پہنچانے کے بعد ہم سب نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور بلال شہید کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور وہ رونے لگا۔ میں نے بلال شہید سے پوچھا کہ ہم تو فتحیاب ہوئے ہیں، الحمد للہ دشمن کو شدید شکست اور پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے، تو پھر کیوں روتے ہو اور آنسو بہاتے ہو؟
بلال شہید نے کہا: جب ہم نے صدر مقام کی جانب انتظامات پورے کر لیے، تو میں نے اللہ تعالیٰ سے التجاء کی کہ آج مجھے شہادت عطا کر دیں، لیکن مجھے شہادت نہ مل سکی، پتہ نہیں میں شہید کیوں نہیں ہوتا؟ میرا کیا گناہ ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مجھے شہادت عطا نہیں کرتا؟ اس کی ان باتوں پر ہم سب رونے لگے۔ٰٰٰٰ”
بلال کلنگاری شہد ایک باثبات شخصیت تھے جنہوں نے جہاد اور جدوجہد کے میدان میں جوانمردی اور بہادری کا مظاہرہ کیا اور دشمن کو شدید جانی و مالی نقصان پہنچایا۔
۲۰۱۵ء میں بلال شہید اپنے امیر موولی محمد اللہ فاروقی شہید کے حکم پر "ریڈ یونٹ” کے کمانڈر مقرر کر دیے گئے اور ننگرہار میں فتنہ پرور گروہ داعشی خوارج کے خلاف جنگ کے لیے بھیج دیے گئے۔ بلال شہید نے خوارج کے خلاف جنگ میں اپنی جوانمردی اور بہادری کا مظاہرہ کیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر داعشی گروہ کو مالی اور جانی نقصان پہنچایا اور اور بعض علاقے اس گروہ کے وجود سے پاک کر دیے اور علاقے کے لوگوں کو اس گروہ کے پنچوں اور مظالم سے نجات دلائی۔
بلال شہید وہاں ڈیڑھ ماہ گزارنے کے بعد شدید بیمار پڑ گئے اور ان کے ایک ساتھی نے بتایا کہ انہیں ایک دن میں پندرہ انجیکشن لگائے یہاں تک کہ وہ کچھ صحتیاب ہو گئے۔
بلال شہید جو شہادت کے پیاسے تھے، انہوں نے دوسری بار بھی ریڈ یونٹ میں شمولیت کے لیے اپنا نام لکھوایا اور پھر ننگرہار روانہ ہو گئے۔ بلال شہید کو اپنے ساتھیوں اور گروپ سے بہت محبت تھی۔ کہتے ہیں کہ ہر ساتھی کی رات میں دو بار پہرہ دینے کی ذمہ داری تھی اور اگر کوئی ساتھی ایک بار پہرہ دیتا تو اس کا دوسری بار کا پہرہ بلال شہید دیتے۔
ان کا ایک ساتھی جو اب بھی زندہ ہے وہ بلال شہید کے روزِ شہادت کا ذکر کچھ یوں کرتا ہے:
"وہ نمازِ فجر کے لیے نکلے اور جب دوبارہ واپس آئے تو کہا کہ داعشیوں نے حملہ کر دیا ہے یہ کہہ کر انہوں نے پیکا (پی کے مشین گن) اٹھائی اور جنگ کے لیے روانہ ہو گئے اور جنگ میں شامل ہو گئے۔”
اس نے مزید بتایا:
"علاقے کے لوگ اس جنگ کو جنگوں کے دور میں دوسری جنگ قرار دیتے ہیں، پہلی جنگ روسیوں کے حملے کے دوران تھی جبکہ دوسری جنگ آج چل رہی تھی، جو وقتِ سحر چار بجے شروع ہوئی اور دس دن بعد ختم ہوئی۔
بلال شہید پیکا مشین گن چلا رہے تھے اور انہوں نے اپنے امیر کو کہا کہ ان شاء اللہ اب تک میں بہت سوں کو مار چکا ہوں۔ اور میں حقیقت میں وہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا کہ بہت سے لوگ مارے جا چکے ہیں۔ میں نے راکٹ پھینکا اور پیکا کا پٹہ بدلنے لگا۔ ایسے میں شہید کے مبارک بدن پر کچھ گولیاں آ کر لگیں اور یہ شجاع، بہادر اور پاکیزہ بطل ۱۳ فروری ۲۰۱۶ء کو صوبہ ننگر کے ضلع رودات میں اپنی وہ عظیم آرزو یعنی شہادت کا عظیم مقام پا گئے، وہ غازی تو مٹی میں دفن ہو گیا اور اس کی روح کا پرندہ فرشتوں کے شہباز کے ساتھ پرواز کر گیا۔
نحسبہ کذالک واللہ حسیبہ