ٹرمپ، نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن

احمد منصور

ٹرمپ ایک ایسے وقت میں اپنا دوسرا دور شروع کر رہا ہے جب کہ اس کے ملک کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، اس بار دنیا کو نہیں، امریکہ کو فکر ہونی چاہیے کہ ہم کیا کرنے جا رہے ہیں؟ یہ لوگ مشرق سے حقیقی معنوں میں مقابلے کی فضا میں داخل ہوچکے ہیں۔

تفصیل میں جانے سے پہلے، ہم حالیہ امریکی انتخابات کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں مروج انتخابات صرف نمائشی ہوتے ہیں، اس لیے پہلے درجے کے ممالک انہیں میڈیا اور زمینی طور پر سنجیدگی سے لیتے ہیں، یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور عوام کے پسندیدہ نظام اسی طرح نافذ ہوتے ہیں۔

جبکہ صدر پہلے سے منتخب ہو چکا ہوتا ہے، صرف عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے یہ تمام مراحل طے کروائے جاتے ہیں، حالیہ امریکی انتخابات نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ بظاہراپنے آپ کو حقوق نسواں کا چیمپئن کہلوانے والوں اور مساوات مرد و زن کا نعرے لگانے والوں کا عمل خود بھی خواتین کے حوالے سے امتیازی سلوک پر مشتمل ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ امیدوار کاملا ہیرس کامیاب کیوں نہیں ہوئی؟ جب کہ صورتحال یہ ہے کہ گذشتہ پوری تاریخ میں مرد صدور کا تجربہ ہو چکا ہے، لہذا اب خاتون صدر کا انتخاب ہونا چاہیے تھا، یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکہ خواتین کی حکمرانی کا قائل نہیں، نہ ہی خواتین کی اس پوزیشن کے قائل ہیں جس کے بارے میں وہ میڈیا میں وقتاً فوقتاً بیانات دیتے ہیں۔

خیر، موضوع کی طرف آتے ہیں۔ ٹرمپ کیسے نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کی صورتحال سے دوچار ہوا ہے؟ وہ اس طرح کہ انتخابات میں جیت سے پہلے اور بعد میں ٹرمپ نے ایسے بیانات دیے ہیں کہ عمل اور خاموشی دونوں ہی انہیں بہت مہنگی پڑے گی۔ جیسے فلسطین، لبنان اور یوکرین میں جنگیں ختم کرنے اور بگرام پر دوبارہ قبضہ کرنے کے دعوے۔

اگرٹرمپ مشرق وسطیٰ کے تنازعات ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ واضح ہے کہ وہاں طاقت کا آپشن بے اثر ثابت ہوا ہے، لہذا وہ پرامن طریقوں سے جنگ کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا، یہ بھی بہت مشکل ہو گا کیونکہ حماس اپنے مطالبات سے دستبردار ہونے کے لیے بالکل تیار نہیں، اسی طرح نیتن یاہو بھی حماس کے مطالبات تسلیم کرنے کو اپنی شکست سمجھتا ہے۔

اسی طرح یوکرین اور روس کا معاملہ کسی حد تک فلسطین کے معاملے سے ملتا جلتا ہے، روس کسی بھی لحاظ سے یوکرین سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں کیونکہ اگر روس یوکرین سے دستبردار ہوتا ہے توخطے میں اس کا دبدبہ ختم ہوجائے گا، اسی طرح یوکرین اپنی دفاعی حیثیت سے ہاتھ نہیں دھو سکتا، ہاں، یوکرین اور روس کے درمیان جنگ روکنے کا ایک طریقہ ہے، وہ یہ ہے کہ اگر امریکہ کی جانب سے یوکرین کو دی جانے والی تمام امداد بند ہو جائے۔

مختصراً یہ کہ درج بالا مسائل امریکہ کے لیے بہت پیچیدہ ہیں، ان دونوں جگہوں میں سے اگر ایک جگہ بھی امریکہ ناکام ہواتو دوسری جگہ اس کی ناکامی یقینی ہے۔

بگرام پر قبضے کے دعوے:

اس موضوع کا جائزہ لینے سے پہلے ہمیں اس پر تبصرہ کرتے ہیں کہ امارت اسلامی ماضی کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور منظم اندازسے عسکری، سیاسی اورثقافتی میدان میں اتری ہے، پوری دنیا کو انہوں نے باور کروایا کہ ترقی اور کامیابی کا مدار تمام دنیا سے اچھے تعامل اورمضبوط معاشی پالیسیوں پر ہے، بالفرض اگر ٹرمپ اپنی مہم کے دوران کیے جانے والے دعووں اور وعدوں کو عملی جامہ پہنانا چاہے تواسے یقینی طور پردو نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

۱- عملی طور پر، یہ دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی، جس سے نہ صرف دنیا میں امریکہ کی پوزیشن کو نقصان پہنچے گا، بلکہ یہ عمل اس بات پر مہرتصدیق ثبت کردے گا کہ امریکہ قابل اعتبار نہیں ہے۔

۲- ایسا کرنے سے ٹرمپ مشرقی بلاک کو مضبوط کرے گا۔

افغانستان سے فراری جمہوری افراد کہتے ہیں کہ ٹرمپ اپنے دعوے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ماہانہ ۴۰ ملین کی امداد روک سکتا ہے، اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اس صورت میں بھی امریکہ کو نقصان اٹھانا پڑے گا، کیونکہ اگر یہ امداد افغان عوام کے لیے ہے تو اس کے روکے جانے پردنیا کا امریکی انسانی حقوق کے نمائشی دعؤوں پر شک یقین میں بدل جائے گا۔

ان فراریوں کے مطابق جب مذکورہ امداد طالبان کے پاس آئے گی تو امریکی حکومت کو اپنے ہی لوگوں کی طرف سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن حقیقت میں مذکورہ امداد کی بندش سے امارت اسلامی پر اس حد تک کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا جتنا اس معاملے میں مخالفین کا خیال ہے۔ ہاں اس فیصلے سے امریکہ اپنے مخالف بلاک میں مزید اضافہ کرے گا۔

مختصر یہ کہ امارت اسلامی نے ماضی سے بہت کچھ سیکھا ہے، اس کی متوازن پالیسی، سیاسی دانشمندی اور مکالمے کی استعداد نے مخالفین کے تمام ہتھکنڈوں کو ناکام بنا دیا ہے، لیکن امریکہ نے اپنی جنگی پالیسیوں کی وجہ سے اپنے آپ کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ حالات میں ٹرمپ/امریکہ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کی مصداق ہے کہ اپنی ہی پالیسیوں کے دلدل میں آخر کار پھنس جائیں گے۔

Author

Exit mobile version