پاکستان اور تاجکستان: داعش خراسان کے نئے ڈیزائنر

✍️ مبارز ھروی

استعمار کے دور میں کابل کی کرائے کی انتظامیہ کی نا اہلی اور قابضین کی موجودگی کے منفی اثرات کے سبب افغانستان داعش کا ایک اہم مرکز بن گیا تھا، اور بالخصوص عراق اور شام میں ان کی نام نہاد خلافت کے خاتمے کے بعد، انہوں نے اس ملک کو اپنی کاروائیوں کے ایک اہم مرکز کے طور پر منتخب کیا۔

اس وقت قابضین اور ان کے زر خرید غلاموں کی آنکھوں تلے اس گروہ کی زیادہ تر سرگرمیاں ننگر ہار اور جوزجان میں کی جا رہی تھیں، اور بہت سے لوگوں کو یقین ہے کہ امریکہ خوارج کو امارت اسلامیہ کے خلاف آخری ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا تھا۔

لیکن امارت اسلامیہ کے قیام کے ساتھ افغانستان سے داعش کی بساط لپٹ گئی اور اس گروہ سے دھوکہ کھانے والے افراد کے پاس امارت اسلامیہ کے شیروں کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی ذریعہ نہ بچا۔

افغانستان میں داعش کی شکست کے بعد یہ گروہ خطے کے مختلف ممالک بالخصوص پاکستان اور تاجکستان کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کا آلہ کار بن گیا۔

المرصاد کی جانب سے منکشف کی گئی دستاویزات کے ذریعے اس تکفیری گروہ کا تاریک چہرا سب کے سامنے واضح ہو گیا اور اب امت مسلمہ خوارج کی غلامی کے حوالے سے کسی شک میں مبتلا نہیں۔

دریں اثناء پاکستان اپنے مذموم مفادات کے حصول کے لیے اپنی سرزمین پر اس گروہ کے ارکان کو تربیت دے رہا ہے جبکہ دوسری طرف سرحد کے اُس پار تاجکستان نے سادہ لوح تاجک نوجوانوں کو داعش میں بھرتی کرنے کی اہم خدمت انجام دی ہے اور داعش کے سپاہیوں کی بھرتی کے لیے سازگار زمین فراہم کی ہے۔

پاکستان اور تاجکستان نے وسطی ایشیا میں اس فتنے کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اس کے احیاء کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔

تازہ ترین معاملے میں پاکستان کا وزیر اعظم شہباز شریف دو روزہ دورے پر تاجکستان گیا اس نے تاجکستان کے صدر سے بھی ملاقات کی۔

اگرچہ اس دورے کا مقصد دو طرفہ تعلقات، تجارت اور علاقائی تعاون بتایا جاتا ہے، لیکن جو چیز واضح ہے وہ یہ ہے کہ امارت اسلامی کی زیر قیادت افغانستان کی بڑھتی ہوئی ترقی اور بالخصوص حالیہ دوحہ اجلاس جو ماضی کی نسبت اس ملک کو دنیا کے مزید قریب لے آیا ہے، ان پر گراں گزر رہا ہے اور یہ چیزیں پڑوسیوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھ رہی ہیں۔

چونکہ ایک آزاد اور خودمختار افغانستان ان کی آنکھ کا کانٹا ہے اور وہ اس مجاہد پرور خطے کی ترقی نہیں دیکھ سکے اس لیے مقابلے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اس بار ان کا ایسی آگ بھڑکانے کا ارادہ ہے کہ جس میں وہ اپنا ہی چہرا جلا بیٹھیں گے۔

جی ہاں! داعش کا دوبارہ احیاء اور اس ناکام منصوبے کو شروع کرنے سے نہ صرف یہ کہ افغانستان کے موجودہ نظام کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، بلکہ دوسری جانب یہ ان کی مصنوعی حکومتوں کی بنیادوں کو منہدم کرنے کا باعث بنے گا، اور یہ چیز وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عیاں ہوتی جائے گی۔

Author

Exit mobile version