پاکستان میں حالیہ بد امنی فوج کی ناکام پالیسیوں کا نتیجہ

عبدان صافی

پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں تشدد اور بدامنی بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں فرقہ وارانہ تشدد اور سیاسی عدم استحکام نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ ملک کے گوشے گوشے سے بد امنی کی خبریں اب عوام کی روزمرّہ زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہی کہ فوج اور سکیورٹی ادارے عوام کی سلامتی کی ضمانت دینے کی بجائے اپنی سلامتی کے لیے پریشان ہیں۔

حسب معمول، پاکستانی حکام قصدا موجودہ بد امنی کو بالخصوص کرم ایجنسی میں فرقہ وارانہ تشدد کو افغانستان سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس طرح وہ اپنی ناکام پالیسیوں کے نتائج پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

گزشتہ چار دہائیوں کے دوران پاکستانی حکام نے خود فرقہ وارانہ گروہ تشکیل دیے اور اپنے اسٹریٹیجک مفادات کے لیے انہیں استعمال کیا، وہ عمدا ان گروہوں کے خلاف اقدامات کرنے سے گریز کرتے رہے، کیونکہ وہ مستقبل میں ان گروہوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔

یہ فرقہ وارانہ گروہ ابتدا میں پاکستان کے بڑے شہروں اور پنجاب میں تشکیل دیے گئے لیکن بعد میں ان کا نفوذ ملک کے دیگر حصوں میں بھی پھیل گیا۔ آج تک یہ گروہ فوج اور خفیہ اداروں کے سائے میں مختلف شکلوں میں سرگرمِ عمل ہیں۔

حالیہ عرصے میں فوج کی حمایت کے ساتھ فرقہ وارانہ عناصر کو پھر کھلی چھوٹ دے دی گئی تاکہ ان کے فرقہ وارانہ تشدد کے ذریعے سے فوج اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈال سکے، ورنہ یہ کہاں ممکن ہے کہ کسی اور ملک کا پراکسی گروپ اپنے جھنٹے کے ساتھ اٹھ کھڑا ہو، گھروں، دیہاتوں اور بازاوں کو جلا کر خاکستر کر ڈالے، عوام کا قتلِ عام کرے اور کھلے عام فوجی چھاؤنیوں پر قبضہ کر لے اور فوج بس دیکھتی رہے؟

ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان تنازعات کے پس پشت فوج کا اپنا ہاتھ ہے، کبھی وہ ایک گروہ کے ساتھ تعاون کرتی ہے اور کبھی دوسرے کو جنگ پر اکساتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اسلام آباد میں چار سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کو ایمرجنسی حالت کا اعلان کرنے کے لیے کافی گردانا جاتا ہے، لیکن کرم ایجنسی میں ایک ہفتے کے دوران ۲۰۰ سے زائد لوگوں کا قتل کسی توجہ کے لائق ہیں؟ یہ خاموشی فوج اور خفیہ اداروں کی پالیسیوں اور ارادوں کو آشکار کرتی ہیں۔

داخلی سکیورٹی سنبھالنے کی بجائے پاکستانی فوج کی ساری کوشش داخلی سیاست کی انجینئرنگ پر مرکوز ہے۔ وہ ملک کی سیاسی جماعتوں کو کمزور، مخصوص حکوتوں کو مضبوط اور لوگوں کی رائے بدلنے کے لیے تو کوششیں کرتے ہیں لیکن اپنی عوام کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے صرف نمائشی کام کرتے ہیں یا پڑوسی ممالک پر الزام تراشی کرتے ہیں۔

امارت اسلامیہ افغانستان کے حالیہ اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک میں داخلی طور پر فرقہ وارانہ مسائل کے حل میں سنجیدہ ہے۔ انہوں نے مسلسل یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ امت مسلمہ کی وحدت پر یقین رکھتے ہیں اور تمام مذہبی گروہوں کو افغان معاشرے کا حصہ سمجھتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی کوشش ہے کہ اپنے پراکسی گروہ داعش کے ذریعے افغانستان کی شیعہ اقلیت، بالخصوص ہزارہ کمیونٹی کے خلاف کچھ کاروائیاں انجام دے، لیکن امارت اسلامیہ نے پھرتی سے حالات پر قابو پا لیا اور بڑے پیمانے پر ان کے ناپاک ارادے خاک میں ملا دیے۔

پاکستان کے خفیہ اداروں کی جانب سے امارت اسلامیہ افغانستان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دے رہی ہے۔ یہ الزامات بالکل غلط اور حقیقت سے دور ہیں۔ امارت اسلامیہ موجودہ حالات میں فرقہ وارانہ اختلافات کے خاتمے اور مسلکی یکجہتی کے فروغ کے لیے عملی اقدامات اٹھا رہی ہے۔

پاکستان کو دوسروں پر الزامات لگانے کی بجائے اپنی ناکام پالیسیوں سے عبرت حاصل کرنی چاہیے اور امارت اسلامیہ کے کامیاب تجربوں سے سیکھنا چاہیے۔

پاکستانی حکام کی پالیسیاں، چاہے وہ داخلی ہوں یا خارجی، مسلسل بد امنی اور عدم استحکام کا باعث بن رہی ہیں۔ ان کی سیاسی مداخلت، فرقہ پرست گروہوں سے تعلقات اور غیر شفاف پالیسیاں ملک کے لیے بے شمار مسائل پیدا کر رہی ہیں۔

Author

Exit mobile version