اگر ہم اپنی گزرئی ہوئی اسلامی تاریخ کو دیکھیں، معتصم باللہ کی گرج دار آواز کو سنیں، محمد بن قاسم کی تلوار کو اپنی تصور کی آنکھ سے دیکھیں اور سلطان محمود غزنوی کی شجاعت پر مبنی فتوحات کو یاد کریں، تو ہمیں پتہ چلے گا کہ کفار کی اس زمین کی خشکی اور تری پر حقیقت میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عمر اور خالد کے ناموں کا ذکر کر کے اپنے بچوں کو سلاتے تھے اور ان کے ناموں سے انہیں ڈراتے تھے۔ یہودی تو وہ لوگ تھے کہ جن کے پورے لشکر کے لیے ایک سرفروش مسلمان ہی کافی تھا لیکن آج کیوں وہی سرخ چہروں والے غلیظ ہم پر غالب آ گئے ہیں؟
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلمان ٰآپس میں متحد نہیں رہے، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے چکر میں پڑ گئے، اور بہت سوں نے تو کفار کی مدد بھی کرنا شروع کر دی، جو مخلص مومنین زندہ ہیں وہ خوف کے مارے اظہار بھی نہیں کر سکتے، اور اپنے ہی مسلمانوں سے خوف کھاتے ہیں، کیونکہ کفار نے اپنے ساتھی بھی امت مسلمہ کے درمیان چھوڑ رکھے ہیں، جن میں سے کسی کو داعش، کسی کو حزب التحریر اور اس طرح دیگر نام دے رکھے ہیں۔
عالمِ کفر چاہتا ہے کہ ان لوگوں کے ذریعے اسلام کو کمزور کریں اور بالآخر اپنا وہ ہدف حاصل کر لیں کہ مسلمانوں کے بزرگوں اور نوجوانوں کو ختم کر دیں، عورتوں کو لونڈیاں اور بچوں کو غلام بنا لیں اور انہیں اپنے دین کے زیر سایہ جوان کریں تاکہ کوئی اسلام کا نام لیوا تک نہ بچے۔
لیکن انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ اسلام وہ دین ہے جس کو قیامت تک قائم رکھنے کا رب تعاٰلیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے، اگر مومنین ختم ہو گئے تو کافر کیا سمجھتے ہیں کہ وہ پھر آرام سے زندگی گزاریں گے؟ نہیں! ہرگز نہیں۔ بلکہ ان پر لازما اللہ تعالیٰ پھر قیامت قائم کر دے گا اور وہ ختم ہو جائیں گے۔
وہ اپنی موجودہ ذلت کے بارے میں بھی نہیں سوچتے، دنیا کی بڑی طاقتیں ان کے ساتھ ہیں لیکن پھر بھی اسلام کے جانباز ان کے سر تن سے جدا کر رہے ہیں اور ہر میدان کو ان کے لیے جہنم کا گڑھا بنا رہے ہیں اور ان شاء اللہ انہیں بہت جلد ذلت کا سامنا کرنا ہو گا۔