۱۰ حوت: معاصر افغانستان کا تابناک دن!

خلیل تسل

افغانستان کی تاریخ میں کچھ دن ایسے ہیں جو کبھی نہیں بھولے جائیں گے، ان میں سے کچھ دن غم کے ہیں اور کچھ خوشی سے معمور، ان میں سے ہجری شمسی کے ماہ کب کی 10 تاریخ، افغانستان کو معاصر استعمار کے قبضے سے آزادی اور خودمختاری کے سنہرے دن کے طور پر بار بار یاد کیا جاتا رہے گا۔

اگر ہم ماضی پر نظر ڈالیں تو افغان ہمیشہ جدوجہد اور آزادی حاصل کرنے میں ہر قسم کے چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے کامیاب ہوئے ہیں، مگر سیاست اور عالمی سفارتکاری کے میدان میں وہ اکثر ناکام رہے ہیں اور مختلف جالوں میں پھنس ہیں۔ اس لیے شاید یہ پہلی بار ہے جب افغانوں نے دونوں میدانوں میں فخریہ انداز سے کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

جہاد اور جدوجہد کے میدان میں نیٹو اور امریکہ کی فوجی طاقت گھٹنے ٹیکنے لگی اور عالمی سطح پر افغانستان کے امارت اسلامی کے وفد نے بیک آواز، اتحاد اور بہادری کے ساتھ استعمار کے اصل مرکز یعنی امریکی رہنماؤں کے ساتھ بات چیت اور مفاہمت کے عمل کو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھایا اور بالآخر آج سے پانچ سال قبل ماہ کب کی 10 تاریخ کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں دوحہ معاہدہ پر دستخط ہوئے۔

حقیقت میں امریکہ نے افغان عوام کی جائز مطالبات اور جدوجہد کو تسلیم کیا اور کابل میں حکومتی نظام کو مزید کنارے لگا دیا، وہ نظام جس کے مفادات اور فائدے شمالی اتحاد اور جمعیت کے گروپوں سے وابستہ افراد اور جمہوریت پسندوں کے حق میں تھے، مگر اس کا نام غلطی سے صرف نام نہاد پشتون رہنماؤں کے ساتھ نتھی کیا گیا تھا۔

امارتِ اسلامی کے مذاکراتی وفد کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر اور افغانستان کے لیے امریکی وزارت خارجہ کے نمائندے زلمے خلیلزاد کے درمیان طے ہونے والا دوحہ معاہدہ دراصل ان ہزاروں شہداء کے خون اور بیواؤں کی آہوں کی طاقت تھی، جنہوں نے آخرکار اکیسویں صدی میں افغانوں کو ایک اور سلطنت کو شکست دینے کا اعزاز بخشا۔ وہ لوگ جنہوں نے اس ملک کو اپنے مذموم مقاصد اور وحشت کے لیے قبضہ کیا تھا، انہیں اس پاک سرزمین سے نکالنے اور شکستِ فاش کا آغاز ہوا۔

اس قومی جدوجہد میں امارتِ اسلامی کا مضبوط مؤقف اور اس تاریخی دن کی یاد ہمیں چند اہم نکات یاد دلاتی ہے، جنہیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے اور یہ تاریخ کے اوراق سے کبھی محو نہیں ہوں گے

۱۔ مؤثر سفارتکاری

سفارتکاری موجودہ دور میں عالمی مفاہمت کی زبان ہے، تمام ممالک اور تنظیمیں اپنی مشکلات، امیدیں اور مطالبات اسی میز پر حل کرتی ہیں اور عالمی نظم کے قیام اور مسائل کو حل کرنے کا یہی واحد راستہ سمجھا جاتا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ماضی میں افغانوں کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ اس عالمی طریقے کو نہیں سمجھتے، لیکن امارتِ اسلامی کی مسلح جدوجہد کے ساتھ ساتھ 2012ء کے بعد سے اس زبان و طریق کو بھی آہستہ آہستہ فعال کیا گیا، اور بالاخر قطر میں دفتر کھلنے کے ساتھ دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ ہم جنگ کے ساتھ ساتھ مذاکرات اور سفارتی زبان کے لوگ بھی ہیں۔ اس مؤثر پالیسی کے تحت دنیا اس بات پر قائل ہو گئی کہ انہوں نے افغانستان پر غیر قانونی طور پر قبضہ کیا تھا اور امارت اسلامی کی جدوجہد ایک خوشحال و کامیاب افغانستان کے لیے ہے جو پوری دنیا کے فائدے میں ہو گا اور کسی کو بھی اس سے نقصان نہیں پہنچے گا۔

2۔ چالیس سالہ جنگ کا اختتام:

افغانستان پر جاری یلغار کے دوران اندرونی وبیرونی میڈیا پروپیگنڈہ کرتاتھا کہ ان جنگوں کی اصل وجہ طالبان ہیں، جبکہ انہیں جمہوریت کے چرنوں میں موجود خفیہ جنگی کماندان، بدمعاش اور مافیائی گروپ، اراکینِ پارلیمنٹ یا مغربی ممالک سے پیراشوٹ کے ذریعے درآمد ہونے والے سوٹڈ بوٹڈ اہلکاروں کے وہ خفیہ مقاصد نظر نہیں آتے تھے، یہ تمام وہ لوگ تھے جو اپنی سرزمین، بیت المال اور ملکی منصوبوں کو اپنے ذاتی شکار کی حیثیت سے دیکھتے تھے اور اپنی عوام کو نفرت کی نظر سے دیکھتے تھے۔

دنیا اب جان چکی ہے کہ طالبان کی جنگ و جدوجہد ذاتی اغراض کے بجائے اس خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے تھی، جس کے لیے دوحہ معاہدہ ہوا اور یوں چالیس سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے ابتدائی قدم اٹھایا گیا اور گذشتہ تین سال سے سب پر عیاں ہوچکا ہے کہ آج افغانستان میں مکمل امن وامان کی فضا قائم ہے۔

۳۔ اجتماعی اور مقدس مؤقف:

دوحہ دفتر کے قیام کے بعد اگرچہ امارتِ اسلامی کے مذاکراتی وفد کے اراکین میں تبدیلیاں آئیں، تاریخوں اور مقامات میں تبدیلیاں ہوئیں، مگر مؤقف اور مقصد ایک ہی تھا، وہ اسلامی شریعت کا نفاذ، افغانستان کی حقیقی خودمختاری اور شہداء کے ارمانوں کا تحفظ۔ یہ واحد نعرہ تھا جو آخر تک برقرار رہا اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، اور افغان عوام کی امیدوں اور آرزوؤں کے ساتھ کبھی بھی مال و متاع کی طرح سلوک نہیں کیا گیا، بلکہ اس کو ایک مقدس آرزو کے طور پر بلند مقام پر پہنچایاگیا۔

۴۔ قوم کی حقیقی نمائندگی:

جمہوری حکومت میں جب افغانستان کے بارے میں دو دہائیوں تک مختلف کانفرنسیں اور اجلاس ہوتے تھے، حکومتی وفد میں ایسے افراد شامل ہوتے تھے جو عوام کی آرزوؤں اور مطالبات کی زبان نہیں سمجھتے تھے، وہ کابل کی حکمرانی یا مغرب کی محلوں میں پلے بڑھے اور تربیت یافتہ لوگ تھے، دوہری یا تین ملکوں کی شہریت رکھنے والے حضرات بھی موجود تھے، وہ لسانی، قومی اور قبائل کی بنیاد پر منتخب کیے جاتے تھے۔ جبکہ امارتِ اسلامی کے مذاکراتی وفد کے تمام اراکین وہ علماء اور بزرگ تھے جو گاؤں دیہاتوں میں پلے بڑھے تھے، ان کا قومی مؤقف تھا، وہ دین اور افغانیت سے بخوبی واقف تھے، اسی لیے انہوں نے قوم کی آواز بلند کی اور اس کی حقیقی نمائندگی کی، جس کے نتیجے میں دوحہ معاہدے کے مواد کو حتمی شکل دی گئی۔

۵۔ مادیات اور دباؤ سے متاثر نہ ہونا:

دوحہ معاہدے اور قطر دفتر کی مختلف نشستوں میں جو رپورٹس میڈیا میں شائع ہوئیں، ان کے مطابق امریکہ اور مغربی ممالک نے اپنے فطری رویے کے مطابق بار بار مادی، اقتصادی اور سیاسی دباؤ کے ہتھکنڈے استعمال کیے، اور ماضی میں انہوں نے افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور دنیا کے دیگر ملکوں میں ان طریقوں سے اچھے نتائج بھی حاصل کیے تھے۔ لیکن اس بار صورت حال مختلف ہوئی اور امارتِ اسلامی کا وفد ہر قسم کے مادی اور اقتصادی دباؤ کے سامنے ثابت قدم اور بے پرواہ رہا، اور افغانستان کی خودمختاری کی راہ میں اپنے مقاصد سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹا۔

۶۔ جنگ اور مذاکرات میں توازن:

امریکی وفد اور کابل انتظامیہ کے رہنماؤں نے بہت بار کوشش کی کہ مذاکرات کے جاری رہنے کے بہانے جنگی میدانوں میں امن اور قومی مفاہمت کے نام پر رکاوٹیں اور تاخیر پیدا کی جائے، لیکن امارت اسلامی کے مجاہدین اور عسکری رہنماؤں نے مذاکرات کی کامیابی کی امید میں کبھی بھی جہاد اور جدوجہد کے محاذوں کو سرد نہیں ہونے دیا، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اپنی جدوجہد کو سخت اور تیز تر کیا۔ یہی جنگوں اور مذاکرات کا مثبت توازن تھا جس نے سفارتی میدان میں مغرور امریکیوں کو بھی مجبور کیا کہ وہ مذاکرات کی طرف پوری طرح توجہ دیں۔

۷۔ بحران پر کنٹرول پانا:

دوحہ معاہدے کے دوران، مذاکرات کے دوران داخلی اور خارجی انٹیلی جنس اداروں، ممالک اور تنظیموں نے اس عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی، تاکہ افغانستان حقیقی خودمختاری تک نہ پہنچ سکے اور امارت اسلامی کو عوام پر مسلط شدہ گروہ کے طور پر پیش کیا جائے، اور کابل کی انتظامیہ کو حقیقی نمائندہ قرار دیا جائے۔ اس کے نتیجے میں اقتصادی بحران اور دیگر پروپیگنڈوں کے نام پر زہر پھیلایا گیا، اور اربکی، مقامی فوج، اور دیگر گروپوں کے نام پر بحران کے دائروں کو تشکیل دیا گیا۔ تاہم امارت اسلامی نے اس بحران کو بہترین طریقے سے قابو کیا اور مقابل فریق کی تمام کوششوں کو ناکام بنایا، اور افغانستان کو حقیقی آزادی تک پہنچایا۔

۸۔ مسئلے کا حقیقی حل تلاش کرنا:

امارت اسلامی نے اپنی جدوجہد کے دوران کبھی بھی حقیقی مذاکرات اور امن کا دروازہ بند نہیں کیا، اندرون ملک اور بیرون ملک مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کی تھی، لیکن مخالف فریق کبھی اس نیک نیتی کو کمزوری سمجھ کر ضائع کرتا تھا۔ آخرکار، اس دروازے کو اصل اور طاقتور فریق (امریکہ) کے لیے کھولا گیا، اور جنہوں نے اپنی کشتی ڈوبتے ہوئے دیکھی، انہوں نے ہوشیاری سے فیصلہ کیا اور قطر دفتر کے ذریعے امارتِ اسلامی کو افغانستان کے حقیقی نمائندہ کے طور پر تسلیم کیا۔ یہی وجہ تھی کہ اصلی فریق کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوئے اور دوحہ معاہدے پر دستخط کیے گئے۔

۹۔ دوطرفہ عزم اور وعدے:

دوحہ معاہدہ دونوں فریقوں کے درمیان مختلف امور پر وعدوں اور عملی اقدامات پر مبنی تھا۔ خوش قسمتی سے، امارتِ اسلامی ہمیشہ اپنے قول اور وعدے پر قائم رہی ہے اور اس معاہدے کے تحت تمام وعدوں کو عملی جامہ پہنایا ہے، دہشت گردوں کے خلاف جنگ کی گئی ہے، افغانستان نے کسی دوسرے ملک کے لیے کوئی خطرہ نہیں بنایا اور نہ ہی کسی کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ بدقسمتی سے مخالف فریق نے متعدد نکات کو پامال کیا ہے، کئی خلاف ورزیوں کے کیسز ہیں جن پر مستقل بحث کی ضرورت ہے۔ افغانستان کی تقریباً چھ ارب ڈالر کی قومی دولت ابھی تک منجمد ہے، اور وہ امداد جس کے افغان عوام مستحق ہیں، باقاعدگی سے فراہم نہیں کی گئی یا بہت کم فراہم کی گئی ہے۔

۱۰۔ گذشتہ غلطیوں کو نہ دہرانی کی یقین دہانی:

گذشتہ انقلابوں میں اکثر افغانوں نے کامیابی کے بعد اپنے آپ کو اور اپنے ملک کو بھلا دیا، ان کی جدوجہد اور کامیابیاں ضائع ہو گئیں، جیسا کہ روس کے خلاف کامیاب جہاد کے بعد تنظیمی رہنماؤں کی غلطیاں اس کی واضح مثالیں ہیں، جن کی وجہ سے افغانستان مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا۔ لیکن اس بار دوحہ معاہدے پر دستخط اور دشمنوں کے انخلاء کی تاریخ پوری ہونے کے ساتھ ہی امارتِ اسلامی کے متعلقہ اداروں نے فوری طور پر کام شروع کیا اور ملک کی تباہی، دشمنیوں اور لوٹ مار جیسے بحرانوں کے بچاؤ کے لیے تیاری شروع کی، فتح کے دنوں میں ہی عوام اس تیاری اور نظم کے گواہ ہیں۔ الحمدللہ، آج تک ایسی کوئی غلطی نہیں دیکھی گئی کہ بیت المال لوٹا جائے یا حکومتی املاک کو نقصان پنچایاجائے۔

۱۰ حوت کا پیغام:

اوپر ذکر کی گئی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ کب کی دسویں تاریخ کوئی عام دن نہیں ہے، یہ ملک کی معاصر تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس دن نہ صرف عالمی سطح پر افغانوں کی سیاسی بصیرت اور عزم کی روشن تصویر پیش ہوئی، بلکہ قومی سطح پر افغانوں کو یہ پیغام بھی دیا گیا کہ ہر قومی مسئلے کے حل کے لیے ہمیں کبھی بھی عالمی قوتوں کے منتظر نہیں رہنا چاہیے۔

ہر وہ نظام اور حکومت جو عوام میں جڑیں اور حمایت نہیں رکھتی، وہ سیلاب کے اوپر بہتے ہوئے جھاگ اور بلبلے کی طرح ہوتی ہے۔ وہ نظام جو جمہوری حکومت کی طرح بیرونی حمایت اور امداد پر انحصار کرتا ہو، وہ غیروں کے مفادات کے لیے کام کرتا ہے، ایک دن نابو ہو جائے گا اور اس کی جگہ ملک کے حقیقی خدمت گزار اور جائز حکومتیں لے لیں گی۔

کب کی دسویں تاریخ کو اپنی تمام تاریخی عظمت کے ساتھ نصابی کتب اور نشریاتی مواد میں جگہ دی جانی چاہیے تاکہ آنے والی نسلیں اپنے آباء و اجداد کا یہ قابلِ فخر کارنامہ یاد رکھیں۔

Author

Exit mobile version