کل شام پاکستانی جنگی طیاروں کی جانب سے افغانستان کے ضلع برمل میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والے عام مہاجرین کے گھروں پر بمباری کی گئی، جس میں معصوم بچوں اور خواتین سمیت کئی افراد نے جام شہادت نوش کیا۔
پاکستان کی جانب سے افغانستان کی سرزمین پر کیے جانے والے فضائی حملے بین الاقوامی قوانین اور دوطرفہ تعلقات کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ یہ حملے نہ صرف افغانستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو چیلنج کرتے ہیں بلکہ دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کو بھی ہوا دیتے ہیں۔ ایسے اقدامات سے نہ صرف امن اور استحکام متاثر ہوتا ہے بلکہ امن کے لیے مشترکہ کوششوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ یہ حملے سفارتی راستوں اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی بجائے طاقت کے استعمال کا تاثر دیتے ہیں، جو خطے کے امن کے لیے خطرناک ہے۔
پاکستانی اداروں کی جانب سے افغانستان میں فضائی حملوں میں ٹی ٹی پی کے کمانڈرز کو نشانہ بنانے کا دعویٰ گمراہ کن اور حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ کیونکہ اس وحشیانہ بمباری میں نشانہ بنائے گئے افراد عام وزیرستانی باشندے تھے جو پاکستانی فوج کے آپریشنز کے دوران اپنے علاقوں سے بے گھر ہوکر افغانستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ یہ لوگ کئی سالوں سے وہاں مقیم ہیں اور اپنی زندگی کے بنیادی مسائل سے نبرد آزما ہیں۔
پاکستان ماضی میں بھی بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے افغانستان کی سرزمین پر حملے کر کے بڑے بڑے کمانڈرز کو نشانہ بنانے کے دعوے کر چکا ہے۔ تاہم، ان دعوؤں کی حقیقت اکثر اوقات سامنے آ گئی جب وہی کمانڈرز بعد میں وزیرستان میں آزادانہ طور پر ظاہر ہوئے اور پاکستانی بیانیے کو غلط ثابت کیا۔
پاکستان کے یہ جھوٹے دعوے نہ صرف اپنی ریاست کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ ان لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں جو ان حملوں میں اپنی جان و مال کا نقصان اٹھاتے ہیں۔ یہ حملے زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے سفارتی اور سیاسی مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔
اس صورتحال میں اگر افغانستان کی حکومت پاکستان کے افغان سرزمین پر حملوں کا جواب دیتی ہے، جو کہ اس کی خودمختاری اور سالمیت کے دفاع کے لیے افغانستان کا ایک جائز حق ہے، تو اس کے خطرناک نتائج کی تمام تر ذمہ داری ریاست پاکستان پر عائد ہوگی۔ افغانستان ایک آزاد اور خودمختار ریاست ہے، جس نے ماضی میں دنیا کی بڑی طاقتوں کو شکست دے کر اپنی آزادی اور وقار کا تحفظ کیا ہے۔ ایسے میں یہ توقع کرنا غیر منطقی ہے کہ وہ پاکستان کی طرف سے کسی تجاوز پر خاموش رہے گا۔
پاکستان کے ایسے اقدامات نہ صرف دوطرفہ تعلقات کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ پورے خطے کو کشیدگی اور ممکنہ جنگ کے دہانے پر لے جا سکتے ہیں۔ افغانستان کی حکومت کا ردعمل ان کے قومی وقار اور عالمی قوانین کے تحت ان کے حق کا اظہار ہوگا۔ اگر اس کشیدگی میں شدت آتی ہے تو خطے کے امن و استحکام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے، اور پاکستان کو ان حملوں کے بدلے میں عسکری، سیاسی اور اقتصادی طور پر بہت بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔