یہود خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے، یہودی ہمیشہ لوگوں کو یہ پیشین گوئی کرتے تھے کہ بہت جلد ایک پیغمبر آئے گا اور ہم اس کی پیروی کریں گے، ان کے آبا و اجداد نے مدینہ کے گرد مضبوط قلعے بنائے تھے تاکہ آخری پیغمبر کی آمد پر ان کی مدد کریں۔
اسی مقصد کے لیے یہودیوں نے شام سے ہجرت کی اور مدینہ کے قریب آباد ہو گئے، یہاں تک کہ مدینہ کے مشرکین ( اوس اور خزرج) کو دھمکی دیتے کہ ’’ہم خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں گے، ان کے محافظ بنیں گے اور تمہیں تباہ کر دیں گے۔
قرآن کریم میں ان کے بارے میں فرمایاگیا:
[مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا]
ترجمہ: "مشرکوں کے ساتھ اختلاف کے دوران وہ یہ کہا کرتے تھے کہ اللہ ہمیں آخری پیغمبر کے ذریعے کامیاب کرے گا۔”
مدینہ میں یہودی تین بڑے قبیلوں میں تقسیم تھے، جن کے پاس تقریباً ساٹھ مستحکم قلعے تھے:
- بنی قینقاع
- بنی قریظہ
- بنی نضیر
اوس اور خزرج کے قبیلے، جنہوں نے طویل جنگوں کی وجہ سے اپنی تمام طاقت کھو دی تھی، یہودیوں کے دسیسوں کا شکار ہوئے تھے، یہودی انہیں باہمی جنگوں پر اُکساتے تھے کیونکہ یہود کا فائدہ جنگوں اور خونریزی میں تھا۔
یہود خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد:
۶ اگست ۶۱۰ء کو ہدایت کا سورج، کائنات کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں نبوت کی عظمت سے سرفراز ہوئے، چند سالوں کی دعوت اور رہنمائی کے بعد، اللہ کے حکم سے مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے۔
وہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں، اوس اور خزرج کے ساتھ ایک مشترکہ امن اور تعاون کا معاہدہ کیا، حالانکہ یہودیوں نے ان کی رسالت کو قبول نہیں کیا تھا۔ معاہدے کا خلاصہ اس طرح تھا:
- یہودی اپنے مذہبی معاملات میں آزاد ہوں گے اور کسی کو مداخلت کا حق نہیں ہوگا۔
- مسلمان اور یہودی اچھے تعلقات رکھیں گے۔
- اگر یہود یا مسلمانوں پر حملہ ہوتا ہے تو دونوں ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔
- مدینہ کا دفاع دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہوگی۔
- کوئی بھی فریق اپنے قبیلے کے لوگوں کو امان دینے کا حق نہیں رکھتا۔
- اگر ایک فریق دشمن کے ساتھ صلح کرتا ہے تو دوسرا فریق اپنے معاہدے پر قائم رہے گا۔
- قیدیوں اور خون کے بدلے گذشتہ طریقے کے مطابق رہیں گے۔
لیکن یہودیوں نے اس معاہدے کی پاسداری نہیں کی، نہ صرف یہ کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد نہیں کی، بلکہ مسلسل اسلام و مسلمانوں کے خلاف سازشیں بھی کیں۔
[فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ]۔
ترجمہ: جب ان کے پاس وہ چیز آئی جسے (تورات میں) انہوں نے پہچانا تھا، تو انہوں نے اس کا انکار کیا، اللہ کی لعنت ہو کافروں پر۔
اور زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ یہودیوں نے اپنی خبیث فطرت سے مجبور ہوکر معاہدے کی خلاف ورزی، حدود سے تجاوز، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کے خلاف سازشیں بننے اور مشرکوں کے ساتھ جنگ میں مدد کرنے لگے۔ جب بنی قریظہ قبیلہ مشرکوں کے ساتھ متحد ہوگیا اور مدینہ پر حملہ کرکے اس نے اپنا کیاہوا معاہدہ توڑ دیا تو فریقین کے درمیان تنازعے کو روکنا ناممکن ہوگیا۔ یہ تنازعہ بنی قینقاع کی جلاوطنی، بنی نضیر کے مدینہ سے اخراج، بنی قریظہ کے جنگجوؤں کے سرقلم کرنے اور خیبر کے یہودیوں کے ساتھ جنگ کا سبب بن گیا۔
اس طرح مسلمان یہودیوں کی شرارتوں سے بچ گئے، قرآن ان کی دشمنی کے بارے میں کہتا ہے:
[لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا]۔
ترجمہ:’’بیشک تم ایمان لانے والوں کے لیے سب سے زیادہ دشمنی رکھنے والے لوگ یہودی اور مشرکوں کو پاؤگے‘‘۔
قرآن مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے:
[يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ]
ترجمہ: اے ایمان والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست نہ بناؤ، اگر کوئی ان سے دوستی کرے گا تو وہ ان ہی میں سے ہوگا۔
اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا:
’’اخرجوا اليهود والنصارى من جزيرة العرب‘‘۔
ترجمہ: یہودیوں اور عیسائیوں کو جزیرہ نما عرب سے نکال دو۔ کیونکہ ان کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔