حماس کے اسلامی اور جہادی تحریک کے سربراہ یحییٰ ابراہیم حسن السنوار گزشتہ روز قابض اسرائیلی فوج کے ساتھ دو بدو لڑائی میں شہید ہو گئے۔
شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد شہید یحییٰ السنوار کو اسلامی تحریکِ مزاحمت ’حماس‘ کے سیاسی دفتر کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔
شہید سنوار ایک مدبر، فعال، عسکری اور سیاسی رہنما تھے، انہوں نے اپنی پوری زندگی اسرائیلی افواج کے ساتھ لڑتے ہوئے، اپنی سرزمین کی آزادی کی مقدس جدوجہد میں گزاری، اورآخر کار اپنی عظیم تمنا، شہادت کو پا گئے۔
شہید یحییٰ ابراہیم حسن السنوار ۱۹ اکتوبر ۱۹۶۲ء کوغزہ کے جنوب میں خان یونس نامی بے گھر افراد کے کیمپ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اسی محلے کے اسکول میں حاصل کی اور بعد میں غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان میں گریجویشن تک تعلیم حاصل کی۔
شہید سنوار اپنی جدوجہد کے دوران متعدد بار قید ہوئے، انہوں نے دو دہائیوں سے زائد جیل میں گزارے، ایک بار انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی، پھر قیدیوں کے تبادلے میں انہیں جیل سے رہا کروایا گیا۔
گزشتہ سال ۷ اکتوبر کو حماس نے اسرائیلی بستیوں کے اندر انتہائی کامیاب کارروائیاں کیں، جس کے نتیجے میں کئی اسرائیلی فوجی مارے گئے اور بڑی تعداد میں اسرائیلیوں کوگرفتارکیا گیا، اس کاروائی کے بعد شہید سنوار اسرائیل کے لیے سب سے مطلوب افراد میں سے تھے، اسی وجہ سے اسرائیلی اداروں نے انہیں قتل کرنے کو اپنے لیے ایک اہم اسٹریٹجک ہدف قرار دیا تھا۔
موصوف ایک ایسے قائد تھے جو اپنی زندگی کی آخری سانس تک حملہ آور قوتوں کے خلاف صف اول میں اپنے مجاہدین کے شانہ بشانہ لڑتے رہے، انہوں نے سرتسلیم خم نہ کیا، انہوں نے ہتھیار نہیں ڈالے اور انہوں نے اپنے عمل سے ایک سچے اور بہادر مجاہد کی مثال قائم کر دی۔
شہید سنوار اپنے مقصد کو پا گئے، وہ اپنی ایک پرانی ویڈیو میں کہتے ہیں، کہ میری سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ میں اسرائیلیوں کے ہاتھوں مارا جاؤں۔ اسرائیل نے ان پر قیدیوں کے درمیان چھپنے کا الزام لگایا تھا، لیکن سنوار انتہائی بہادر تھے جو دشمن کے ساتھ آمنے سامنے جنگ میں شہید ہوئے اوراپنے ہدف کو پا گئے۔
شہید سنوار تاریخ اسلام کا درخشاں ستارہ تھے، انہوں نے اپنی پوری زندگی مقدس جدوجہد و جہاد میں گزاری، دشمن اسلام کو اس کے گھر میں بے چین کیے رکھا اور اس کی نیندیں حرام کیے رکھیں، دشمن اس کے نام سے خوف زدہ تھا کیونکہ اس عظیم انسان نے اس کے تمام شیطانی منصوبے ناکام بنا رکھے تھے۔