معیشت ہر نظام اور معاشرے کے استحکام کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، عوام کی زندگی اور معاشرتی بقاکا معاشی استحکام سے گہرا تعلق ہے، اقتصادی یا معاشی استحکام سماجی انصاف، ملازمت کے مواقع فراہم کرنے اور غربت کے خاتمے کے لئے ایک بنیادی امرہے۔ جب معیشت مضبوط ہوتی ہے، لوگ اپنی بنیادی ضروریات تک رسائی حاصل کرتے ہیں اور یہ سب معاشرتی استحکام اور ترقی کا باعث بنتا ہے۔
کسی ملک کی سیاسی قوت بھی بڑی حد تک اقتصادی طاقت سے جڑی ہوئی ہوتی ہے؛ اگر معیشت کمزور ہو تو سیاسی مسائل، بغاوتیں اور داخلی یا خارجی دباؤ بڑھ جاتے ہیں اور اگر معیشت طاقتور ہو تو نظام کی مضبوطی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
یہاں تک کہ کسی نظام کی سیکیورٹی اور دفاعی امور کو چلانے کے لئے بھی مضبوط معیشت ضروری ہے، اسلحہ، آلات جنگ اور سیکیورٹی فورسز کے لئے بجٹ اقتصادی وسائل کے ذریعے ہی فراہم کیا جاتا ہے۔
فی زمانہ عالمی سطح پر معیشت کی اتنی اہمیت ہے کہ مختلف ممالک کے درمیان تعلقات اکثر اقتصادی قوت کے بل بوتے پر ہی قائم ہوتے ہیں، اگر کوئی ملک اقتصادی طور پر طاقتور ہو تو عالمی سطح پر بھی اس کا اثر و رسوخ اور تعاون کی صلاحیت بھی زیادہ ہوتی ہے۔
جب حکومت اسلامی ہو تو دیگر نظاموں کی نسبت اس حکومت کو اقتصادی معاملات پر زیادہ توجہ دینی چاہیے، اسلامی نظام میں اقتصادی معاملات بہت بلند اصولوں و اقدار پر مبنی ہیں، کیونکہ معیشت نہ صرف لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کا ذریعہ ہے بلکہ یہ سماجی انصاف، خوشحالی، ترقی اور اللہ تعالی کے احکام کی تکمیل کا بھی ایک اہم حصہ ہے۔
اسلامی نظام میں معیشت کو اس طرح منظم کیا جانا چاہیے کہ تمام لوگوں کی ضروریات انصاف کے ساتھ پوری ہوں، غربت اور عدم مساوات کا خاتمہ ہو، معاشرہ اسلامی اصولوں کی بنیاد پر اقتصادی خودمختاری اور ترقی کی جانب گامزن ہو۔
اسی لئے امارت اسلامیہ افغانستان نے پچھلے تین سالوں میں اقتصادی امور کے حوالے سے کئی اہم اقدامات اٹھائے ہیں اور ایسی کامیابیاں حاصل کی ہیں جو قابل ذکر ہیں، یہ تمام کوششیں ظاہر کرتی ہیں کہ امارت اسلامیہ بھر انداز میں کوشاں ہے کہ بیرونی امداد کے جال سے باہر نکلے اور اپنے قدرتی وسائل اور اندرونی اسباب پر انحصار کرے۔ یہ کوششیں معدنیات کی کان کنی، پانی کے انتظام اور برآمدات میں اضافے کے شعبوں میں خاص طور پر قابل تحسین ہیں۔
امارت اسلامیہ کی کوشش ہے کہ افغانستان کی معیشت کو بیرونی امداد کی بجائے اپنے قدموں پر کھڑا کرے، اگرچہ عالمی امداد کے بند ہونے کے نتیجے میں ابتدا میں افغانستان کو شدید اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مگر اندرونی وسائل کی طرف توجہ اور ان سے استفادے نے اس دباؤ کو کچھ حد تک کم کیاہے۔ کانوں کی آمدن، زراعت کی ترقی اور برآمدات میں اضافے نے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب افغانستان اقتصادی لحاظ سے خودکفیل ہونے کے قریب ہے۔
امارت اسلامیہ کی گذشتہ تین سالہ مدت میں افغانستان کی برآمدات ۸۰۰ ملین ڈالر سے بڑھ کر تقریباً دو ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ اس کے علاوہ، قوش تیپہ منصوبہ، قدرتی معدنیات کی کانیں اور افغانی کرنسی کا استحکام بھی معاشی ترقی کی نمایاں مثالیں ہیں۔
امارت اسلامیہ کی قیادت اور رہنما اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اسلامی نظام کے دائرہ کار میں معیشت صرف لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ ایک بڑی دینی ذمہ داری بھی ہے جو اللہ تعالی کے احکام کی تکمیل کے لیے کام میں لائی جاتی ہے اور جس کے اہم مقاصد ہوتے ہیں۔
امارت کے رہنماؤں کا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین کی دولت امانت کے طور پر دی ہے اور اس کی صحیح نگرانی انسان پر عائد کی ہے، اقتصادی امور کا مقصد صرف منافع نہیں ہونا چاہیے، بلکہ معاشرے کی فلاح اور اسلامی اصولوں کی تکمیل بھی اس کا حصہ ہونا چاہیے، اسی وجہ سے کبھی بھی اقتصادی معاملات میں شرعی اور اسلامی رہنما اصولوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔