۶۔ چھٹا اصول: زمینی سالمیت اور مکمل آزادی کا سو فیصد تحفظ ہے۔ آج کل دنیا نسبتاً آزادی پسند ہے، لیکن خارجہ پالیسی، معیشت اور فوج کے شعبوں میں پوری دنیا میں آزاد ممالک کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ جبکہ اسلامی ممالک میں ان شعبوں میں مطلق آزادی نہیں۔ لیکن اسلامی نظام کسی بھی شعبے میں غیروں کے احکامات قبول نہیں کرتا۔
۷۔ ساتواں اصول: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ اسلامی نظام کبھی بھی احتساب کے بغیر نہیں ہوتا۔ حکومتی اور امت کے عمومی امور میں یہ اصول نافذ کیا جاتا ہے۔
۸۔ آٹھواں اصول: اسلامی نظام میں حاکم اور رعیت کے درمیان شرعی وفاداری ہوگی۔ حاکم اپنی رعیت کے تمام حقوق پورے کرے گا، اور رعیت اس کے تمام شرعی امور میں سمع و اطاعت کرے گی۔ ایسے حاکم کے خلاف اٹھنا شرعاً بغاوت سمجھی جائے گی۔
۹۔ نواں اصول: اسلامی نظام میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے ذاتی طور پر امیدوار ہونا جائز نہیں۔ شریعت میں جو شخص اقتدار مانگتا ہے، اسے اقتدار کا مستحق نہیں سمجھا جاتا۔ بلکہ شرعی اہلیت کی بنیاد پر حاکم منتخب کیا جاتا ہے۔ اسلامی نظام میں کام ایک ذمہ داری ہے، کوئی حق نہیں کہ کوئی اس کا دعویٰ کرے، پروپیگنڈا مہم چلائے، خود کو دوسروں سے بہتر سمجھے، اخراجات کرے، نقصانات اٹھائے، اور پھر جب کوئی عہدہ حاصل کر لے تو بیت المال کو اپنے لیے حلال سمجھ لے، یہ بہانہ بنا کر کہ اس نے اخراجات کیے ہیں۔
۱۰۔ دسواں اصول: اسلامی نظام میں عورت عوامی یا تنفیذی عہدوں پر فائز نہیں ہو سکتی، اور اگر ماحول سازگار نہ ہو تو فرعی یا چھوٹے عہدوں پر بھی فائز نہیں ہو سکتی۔
۱۱۔ گیارہواں اصول: اسلامی نظام میں خارجہ پالیسی اسلامی اخوت کی بنیاد پر استوار ہوتی ہے، جب تک کہ مشترکہ مفادات میں کوئی تصادم نہ ہو، اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
خارجہ پالیسی میں امت کا تصور اہم اور بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر کوئی مخصوص تصادم یا بڑا نقصان رکاوٹ بن جائے، تو پھر ترجیحات کی بنیاد پر مشترکہ حقوق میں اپنے نظام کی خودمختاری کو ترجیح دی جائے گی۔
مذکورہ بالا اصول وہ ہیں جن پر اسلامی نظام قائم ہوتا ہے۔ آج کل یہ اصول مکمل طور پر کسی بھی ملک یا ریاست میں نظر نہیں آتے۔ اگر کوئی ایک یا آدھا اصول نسبتاً موجود بھی ہو، تو اسے اسلامی نظام نہیں کہا جا سکتا۔
لیکن الحمدللہ، افغانستان میں یہ اسلامی نظام امارت اسلامیہ کے زیر سایہ مکمل طور پر نافذ ہے۔ مذکورہ بالا اسلامی نظام کی تعریف اس پر صادق آتی ہے، اور یہ گیارہ اصول بھی اس میں مکمل طور پر موجود ہیں۔
اسلامی نظام کے نام:
اسلامی نظام کو فقہ اور احادیث میں مختلف نام دیے گئے ہیں، لیکن سب کا مفہوم ایک ہی ہے:
خلافت:
اسے خلافت کہا گیا ہے، کیونکہ اسلامی نظام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں کام کرتا ہے۔ اس کے سربراہ کو خلیفہ یا امیر المؤمنین کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ الموسوعۃ الفقہیہ میں ذکر ہے:
"الخلافة هي رياسة عامة في الدين والدنيا نيابة عن النبي صلی الله عليه وسلم و تسمی ایضا الامامة الکبری” (الموسوعة الفقهية، جلد 6، صفحہ 196)۔
امارت:
اسے امارت کہا جاتا ہے، کیونکہ اسلامی نظام کا امیر اسلام کے احکام اور حکم کو رعیت پر نافذ کرتا ہے۔ فقہائے عظام اسے دو اقسام میں تقسیم کرتے ہیں: امارت عامہ اور امارت خاصہ۔ "فالامارة العامة هي الخلافة والامامة الکبری” یعنی امارت، خلافت اور امامت سب ایک ہی مقصد، ایک ہدف اور ایک معنی رکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے احکام کو اس کی زمین پر اس کے بندوں پر نافذ کرنا، یہی اسلامی نظام ہے اور اسے امارت کہا جاتا ہے۔
امامت:
اسے امامت یا امامۃ الکبریٰ بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ قوم کی رہنمائی اور قیادت اسلامی نظام کے سربراہ کے ذمے ہوتی ہے۔
یاد دہانی:
یہ بات اس لیے ذکر کی گئی کہ موجودہ دور کے خوارج (داعشی) اور ان کے حامی ایسے بے جا پروپیگنڈا کے ذریعے مسلمانوں کے ذہنوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم خلافت چاہتے ہیں، خلافت قائم ہونی چاہیے، اور ساتھ ہی امارت کے نام پر بے جا تنقید بھی کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب خوارج کا پروپیگنڈا ہے۔ الحمدللہ، آج کل ہر مومن مسلمان کو امارت اسلامیہ کی حقانیت معلوم ہے اور ان باطل پرست گروہوں کا بطلان بھی واضح ہے۔ ان کے پاس ایسی بے معنی باتوں کے سوا کچھ نہیں بچا، لیکن یہ سب ان کے لیے بے فائدہ ہے۔