امام بیضاوی رحمه الله:
امام بیضاوی رحمه الله نے بھی اپنی تفسیر ’’أنوار التنزيل و أسرار التأويل‘‘ میں جو تفسیر بیضاوي کے نام سے مشہور ہے، فرماتے ہیں: ﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾ یہ آیت تشدید پر محمول ہے، جیسا کہ موصوف نے فرمایا:
﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾ أي ومن والاهم منكم فإنه من جملتهم، وهذا التشديد في وجوب مجانبتهم كما قال عليه الصلاة والسلام: «لا تتراءى ناراهما». (دوسری جلد صفحه ۱۳۰)
علامه ابو حیان الاندلسی رحمه الله:
اپنی تفسیر’’البحر المحیط‘‘ کی تیسری جلد صفحہ ۴۰۶ پر علامه ابو حیان الاندلسی رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ آیت ﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾ تشدید پر محمول ہے اور فرمایا: جب کوئی مسلمان عملاً اور فعلاً کفار کا دوست اور ان کا مددگار بنتاہے لیکن عقیدتاً صحیح ہوتاہے تو اس کا یہ عمل برائی اور شناعت میں کفار کی طرح ہے اور اگر یہ مسلمان عقیدتاً کفار کا دوست ہو تو پھر حقیقی کفر میں ہی ان کی طرح ہے۔
﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ﴾ فِي الْعَهْدِ ﴿فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾ فِي مُخَالَفَةِ الْأَمْرِ. وَهَذَا تَشْدِيدٌ عَظِيمٌ فِي الِانْتِفَاءِ مَنْ أَهْلِ الْكُفْرِ، وَتَرْكِ مُوَالَاتِهِمْ، وَإِنْحَاءِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍ وَمَنِ اتَّصَفَ بِصِفَتِهِ وَمَنْ تَوَلَّاهُمْ بِأَفْعَالِهِ دُونَ مُعْتَقَدِهِ وَلَا إِخْلَالٍ بِإِيمَانٍ فَهُوَ مِنْهُمْ فِي الْمَقْتِ وَالْمَذَمَّةِ، وَمَنْ تَوَلَّاهُمْ فِي الْمُعْتَقَدِ فَهُوَ مِنْهُمْ فِي الْكُفْرِ.
ترجمہ: یہ بہت بڑی سخت وعید ہے کہ کفار سے تعلقات اور دوستی نہ رکھی جائےاور عبداللہ بن ابی اور اس جیسے اعمال سے متصف افراد سے دوری اختیار کی جائے، اگر کوئی مسلمان عقیدے کے بجائے صرف اعمال میں ان کے ساتھ ہوتو گناہ اور وبال میں ان کفار میں شامل ہوگا اور اگر کوئی مسلمان ان کے ساتھ عقیدۃ دوستی و محبت رکھے تو انہی کی طرح کافر شمار ہوگا۔
امام قرطبی رحمه الله:
امام قرطبي رحمه الله اپنی تفسیر کی چھٹی جلد صفحه ۲۱۷ پر فرماتے ہیں:
قَوْلُهُ تَعَالَى: ﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ﴾ أَيْ يَعْضُدْهُمْ عَلَى الْمُسْلِمِينَ ﴿فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾ بَيَّنَ تَعَالَى أَنَّ حُكْمَهُ كَحُكْمِهِمْ، وَهُوَ يَمْنَعُ إِثْبَاتَ الْمِيرَاثِ لِلْمُسْلِمِ مِنَ الْمُرْتَدِّ، وَكَانَ الَّذِي تَوَلَّاهُمِ ابْنُ أُبَيٍّ، ثُمَّ هَذَا الْحُكْمُ بَاقٍ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ فِي قَطْعِ الْمُوَالَاةِ، وَقَدْ قَالَ تَعَالَى: ﴿وَلَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ﴾ (هود: 113) وَقَالَ تَعَالَى فِي "آلِ عِمْرَانَ”: ﴿لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ﴾ (آل عمران: 28) وَقَالَ تَعَالَى: ﴿لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ﴾ (آل عمران: 118) وَقَدْ مَضَى الْقَوْلُ فِيهِ. وَقِيلَ: إِنَّ مَعْنَى ﴿بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ﴾ أي في النصرة ﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾ شَرْطٌ وَجَوَابُهُ، أي لِأَنَّهُ قَدْ خَالَفَ اللَّهَ تَعَالَى وَرَسُولَهُ كَمَا خَالَفُوا، وَوَجَبَتْ مُعَادَاتُهُ كَمَا وَجَبَتْ مُعَادَاتُهُمْ، وَوَجَبَتْ لَهُ النَّارُ كَمَا وَجَبَتْ لَهُمْ، فَصَارَ منهم أي من أصحابهم.
ترجمہ: ﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ﴾ اور اگر تم میں سے کوئی ان سے دوستی رکھے یعنی مسلمانوں کے مقابلے میں کفار سے تعاون ومدد کرے ﴿فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾ تو یہ مسلمان انہی کفار میں سے شمار ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ ان کا حکم کافروں کی طرح ہے اور یہ حکم مسلمانوں کے لئے مرتد کے میراث کی نفی پر دال ہے، اسی طرح یہ حکم ہر اس شخص کے بارے میں ہے جس نے کافروں کے ساتھ دوستی کی ہو، جیسے عبد اللہ بن ابی بن سلول نے کیا تھا؛ اب یہ حکم قیامت تک کفار سے موالات کی ممانعت پر صریح دلیل وحکم ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "ظالموں کی طرف میلان نہ کرو، ورنہ تمہیں عذاب پہنچے گا” اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران میں فرمایا: "مؤمن کافروں کو دوست نہیں بناتے” اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "انہیں رازدار نہ بناؤ” جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں، یعنی مدد میں ﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ﴾، یہ شرط اور جواب شرط ہے۔
یعنی عبد الله بن ابی بن سلول نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی، جیسے ان کافروں نے کی تھی، اب اس سے دشمنی واجب ہوگئی، جیساکہ کافروں کی دشمنی واجب ہوئی تھی اور اس کے لیے آگ واجب ہوگئی، جیسے کافروں کے لیے واجب ہوئی تھی، لہذا اب وہ کفار میں سے شمار ہوگا۔
علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے سورۃ ممتحنہ کی تفسیر میں وضاحت کی ہے کہ جب کوئی شخص کافروں کے ساتھ مسلمان کے خلاف دنیوی مقصد کے لیے مدد کرتا ہے، تو "لم یکن بذالک کافرا” یعنی وہ اس عمل سے کافر نہیں ہوتا "واعتقاده على ذالک سلیم” اور اس کا عقیدہ اس حوالے سے سالم ہوتا ہے تو اس عمل کے ذریعے وہ کافر نہیں بنتا۔
اسی طرح علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے سورۃ مائدہ کی اس آیت کی تفسیر میں مذکورہ عبارت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اگر کوئی شخص کافروں کے ساتھ تعاون کرے جبکہ اس کا عقیدہ بھی فاسد ہو، یعنی مراد "موالات” سے موالات مطلقہ تامہ ہے اور موالات مطلقہ تامہ وہ موالات کہلاتی ہے جو عقیدے کی خرابی اور فساد پر مبنی ہو۔ اسی لیے انہوں نے اس کی مثال میں عبد اللہ بن ابی ابن سلول کو ذکر کیا ہے اور عبد اللہ بن ابی ابن سلول کی موالات عقیدوی (عقیدے کی بنیاد پر) تھی، اس حوالےسے سورۃ ممتحنہ کی تفسیر میں اس بات کی کافی وضاحت کی گئی ہے، یہاں سورۃ مائدہ کی تفسیر میں اس قدر وضاحت نہیں ہے۔
علامه نسفی رحمه الله:
علامه نسفی رحمه الله آیت ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّىْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ﴾ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
وفیه دلیل على أن الکبیرة لا تسلُب اسم الایمان. (مدارک، تیسری جلد، ص: ۴۶۶)
یعنی علامہ نسفی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی اگر کوئی شخص مسلمانوں کے خلاف کفار سے مدد وتعاون عقیدے کی خرابی کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی دنیاوی غرض سے کرے تو گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوگا، کافر نہیں۔
علامه اسماعیل الاستانبولی رحمه الله:
مفسر "روح البیان” علامه اسماعیل الاستانبولی رحمه الله اپنی تفسیر کی نویں جلد صفحہ ۳۸۲ پر فرماتے ہیں:
(روي) أن حاطبا رضى الله عنه لما سمع ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا﴾ غشِي عليه من الفرح بخطاب الإيمان، لما علم أن الكتاب المذكور ما أخرجه عن الإيمان لسلامة عقيدته، ودل قوله: ﴿وَعَدُوَّكُمْ﴾ على إخلاصه، فإن الكافر ليس بعدوّ للمنافق، بل للمخلص.
جب حاطب رضی الله عنه نے آیت کریمه ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّىْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ﴾ سنی تو خوشی کی وجہ سے بیہوش ہوگئے، کیونکہ اس آیت میں خطاب لفظ ﴿اٰمَنُوْا﴾ سے ہواتھا، وہ سمجھ گئے کہ مشرکین کو جاسوسی کا خط بھیجنا مخالف یا ناقض ایمان عمل نہ تھا کیونکہ عقیدہ تو بہرحال صحیح تھا؛﴿عَدُوَّكُمْ﴾ کا لفظ حضرت حاطب رضی الله عنه کے اخلاص پر دلیل ہے، کیونکہ کافر کبھی منافق کا دشمن نہیں ہوسکتا بلکہ وہ ہمیشہ مخلص مسلمان کا دشمن ہوتاہے۔
علامه عینی رحمه الله:
علامہ عینی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’عمدة القاری شرح صحیح البخاری‘‘ کی آٹھویں جلد کی ۱۹۰ویں صفحہ پر حدیث ’’من حلف بملة غیر الإسلام کاذبًا متعمدًا فهو کما قال‘‘ کی شرح میں فرمایا کہ یہ بات مقید اس لیے کی گئی کہ کبھی قسم کھانے والا اس دین کا اعتقاد نہیں رکھتا تو وہ صرف کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوگا۔
فرماتے ہیں کہ اس صورت میں وہ شخص گناہگار اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے، کیونکہ جب اس نے کفری دین پر قسم کھائی تو اگرچہ وہ اس کا عقیدہ نہیں رکھتا، لیکن اس قسم کے ذریعے وہ اس شخص کے مشابہ ہوگیا جو اس باطل دین کا معتقد ہو اور اس کی تعظیم کرتا ہو، اس لیے اس قَسم کو زجر اور تغلیظ کے طور پر سمجھا گیا اور اس کو تنبیہ کی گئی کہ قسم کھانے والا اس قسم کے ذریعے ان لوگوں کی طرح ہوگیا ہے جو اس دین کے پیروکار ہیں۔
جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے: ﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ﴾ یہاں لفظ "مِنْهُمْ” میں تغلیظ (شدت) اور مبالغہ ہے، کیونکہ یہ اس بات کی تاکید ہے کہ جو شخص ان کے ساتھ گہرا تعلق رکھے، وہ گویا ان میں سے ایک ہی ہے۔
اسی طرح اس حدیث کی تشریح بھی اسی اصول پر ہے، لیکن اس میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ جب کسی شخص کا عقیدہ ان کافروں کی طرح نہ ہو، تو وہ گناہگار تو ہوسکتا ہے لیکن کفر کا مرتکب نہیں ہوتا؛ اور اگر کسی شخص کا عقیدہ بھی ان جیسا ہو، یعنی وہ ان کے دین کا معتقد اور پیروکار ہو تو پھر حقیقتاً وہ کافر ہوگا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "مَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ” یعنی جب عقیدہ شامل ہو، تو پھر ایسا شخص حقیقت میں کافر شمار ہوگا۔
عنْ ثابتِ ابنِ الضَّحَّاكِ رَضِي الله تَعَالَى عنهُ عنِ النبيِّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ: مَنْ حَلَفَ بِمِلَّةٍ غَيْرِ الإسْلامِ كاذِبا مُتَعَمِّدا فَهْوَ كَمَا قَالَ قَوْله: "كَاذِبًا” حَال من الضَّمِير الَّذِي فِي "حلف”، قَوْله: "مُتَعَمدا” أَيْضا حَال من الْأَحْوَال المتداخلة أَو المترادفة. قيد بِهِ لِأَنَّهُ إِذا كَانَ الْحَالِف بذلك غير مُعْتَقد لذَلِك فَهُوَ آثم مرتكب كَبِيرَة؛ إِذْ قد تشبه فِي قَوْله بِمن يعظم تِلْكَ الْملَّة ويعتقدها، فغلظ عَلَيْهِ الْوَعيد بِأَن صير كواحد مِنْهُم مُبَالغَة فِي الردع والزجر، كَمَا قَالَ تَعَالَى: ﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾ (الْمَائِدَة: 15).
وَقَالَ الْقُرْطُبِيّ: قَوْله: "مُتَعَمدا”، يحْتَمل أَن يُرِيد بِهِ النَّبِي ﷺ من كَانَ مُعْتَقدًا لتعظيم تِلْكَ الْملَّة الْمُغَايرَة لملة الْإِسْلَام، وَحِينَئِذٍ يكون كَافِرًا حَقِيقَة، فَيبقى اللَّفْظ على ظَاهره. قَوْله: "فَهُوَ كَمَا قَالَ” قَالَ ابْن بطال: أَي: هُوَ كَاذِب لَا كَافِر، وَلَا يخرج بِهَذِهِ الْقِصَّة من الْإِسْلَام إِلَى الدّين الَّذِي حلف بِهِ؛ لِأَنَّهُ لم يقل مَا يَعْتَقِدهُ، فَوَجَبَ أَن يكون كَاذِبًا، كَمَا قَالَ: لَا كَافِرًا.
اس عبارت کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی نے کافروں کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہوں یا کسی باطل دین پر قسم کھائی ہو تو اہل سنت والجماعت کے ائمہ کرام، سلف صالحین اور مجتہدین عظام کے نزدیک وہ شخص اس وقت کافر شمار ہوگا جب اس عمل میں عقیدے کی خرابی شامل ہو، یعنی اگر عقیدے کا فساد اس میں شامل ہو تو وہ شخص کافر ہوجاتا ہے، لیکن اگر یہ فساد عقیدے کا حصہ نہ ہو اور صرف دنیاوی یا ذاتی مقصد کے لیے ہو، تو وہ کفر نہیں ہوگا۔
اس کی مثالیں یہ ہیں: حاطب بن ابی بلتعہ رضی الله عنه کا مکہ کے قریش کو خط بھیجنا یا ابو لبابہ بن المنذر رضی الله عنه کا یهودیوں کو اشارہ کرنا کہ تمہیں ذبح کیاجائے گا یا فرات بن حیان رضی الله عنه کا جاسوسی کی وجہ سے گرفتار ہونا اور پھر اس بات پر آزاد ہونا کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ میں مسلمان ہوں، جبکہ آپ علیہ السلام نے اس کے قتل کا فیصلہ کیاتھا(اس کی تفصیل بعد میں آئے گی) اسی طرح واقعہ افک میں سعد بن عبادہ رضی الله عنه کا عبد اللہ بن ابی ابن سلول کی مدد کرنا کہ سعد بن معاذ رضی الله عنه (جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ان کی موت سے عرشِ رحمن ہل گیا) سے کہا: ’’کذبتَ والله لا تقتله ولا تقدر على قتله‘‘ (تم جھوٹ بولتے ہو، اللہ کی قسم تم اسے نہیں مار سکتے، اور نہ تم اسے مارنے کی طاقت رکھتے ہو)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضي الله عنها نے سعد بن عبادہ رضي الله عنه کے بارے میں فرمایاتھا:
’’وکان قبل ذالک رجلاً صالحاً ولکن احتملته الحمیة ‘‘
(وہ پہلے اچھا آدمی تھا، لیکن اسے عصبیت نے بہکایا)۔
یہ تمام مثالیں اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ جب کسی شخص کا دنیاوی مقصد ہو یا وہ عصبیت یا ذاتی طور پر کسی کافر کی مدد کرتا ہو تو اس عمل کو کفر نہیں سمجھا جائے گا، جب تک کہ دینِ باطل کا اعتقاد ہو۔