اسلام ایک معاشرتی اجتماعی نظامِ زندگی ہے، شریعت کی روشنی میں یہ کفار سے مختلف قسم کے تعلقات کی اجازت دیتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بعض کفار کی دیگر کفارکے خلاف مدد کی، انہوں نے قریش کے خلاف بنو خزاعہ کی مدد کی۔
نیز اسلام کی تقویت اور فائدہ کے لیے کفار سے مدد طلب کی اور سیرت نبوی میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن کی چند مثالیں ہم یہاں ذکر کرتے ہیں۔
- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طائف کے سفر کا ایک اہم مقصد وہاں رہنے والے کفار سے پناہ اور مدد حاصل کرنا تھا، لیکن انہوں نے مدد کرنے سے انکار کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت تکلیف دی اور آپ کو زخمی کر دیا۔
- واپسی پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوہ حرا کے دامن میں گھیر لیا گیا اور آپ نے بنو خزاعہ قبیلے کے ایک شخص اخنس بن شریف کو مدد کا پیغام بھیجا کہ مجھے پناہ دیں، لیکن اس نے معذرت کر لی۔
- پھر سہل بن عمر سے پناہ مانگی، اس نے بھی معذرت کر لی۔
- پھر مطعم بن عدی کو پیغام بھیجا، اس نے پیغام قبول کر لیا۔ اس نے اپنے بیٹوں اور اپنے قبیلے کو بلایا اور ان سے کہا کہ بیت اللہ شریف کے اطراف میں مسلح ہو کر بیٹھو، میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پناہ دی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیجا کہ آپ مکہ میں داخل ہو جائیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مطعم بن عدی کا یہ احسان ہمیشہ یاد کرتے، جب بدر میں کفار مکہ کو قید کیا گیا اور ان کی رہائی کے لیے مطعم بن عدی کے بیٹے جبیر بن مطعم آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"لوکان المطعم بن عدی حیاّ ثم کلّمنی فی هؤلاء النتنی لترکتهم”
اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتے اوران پلید لوگوں کے حوالے سے بات کرتے تو ان سب کو آزاد کردیاتا۔ - نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم درج ذیل مختلف قبائل کے پاس گئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ آپﷺ کی مدد کریں اور پناہ دیں، جیسے:
بنی عامر بن صیصع، محارب بن خصفہ، فزارہ، غسان، مرہ، حنیفہ، سُلیم، عبس، بنو النظر، بنو البکاء، کلب، حارث بن کعب، عذرہ، حضارمہ۔ - شعب ابی طالب میں بہت سے رشتہ دار جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت اور تعاون میں کھڑے تھے، کافر تھے، ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی قسم کا کوئی سماجی بائیکاٹ نہیں کیا تھا۔
- عقبہ کبری ایک اہم موقع تھا، نبی اکرم ﷺ مدینے کے سرداروں سے خفیہ طور پر بیعت لے رہے تھے، یہ صرف ایمان لانے کی ہی بیعت نہیں تھی، بلکہ اس بات کی بھی بیعت تھی کہ نبی اکرم اور صحابہ کرام جب مدینہ ہجرت کریں گے تو یہ حضرات آخر دم تک ان کی حفاظت ودفاع کریں گے، اس رازداری کے معاملے میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، جو اب تک کافر تھے اور ایمان سے مشرف نہیں ہوئے تھے۔
- ہجرت کے موقع پر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن اریقط لیثی کو اپنا رہبرمقرر کیا، حالانکہ وہ ابھی تک کافر تھے۔
سیرت طیبہ میں اور بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً کفار سے مدد لی اور ان سے تعلقات رکھے تھے۔