یہ جو خوارج دین کو نہیں سمجھتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ: خوارج "سفھاء الاحلام” اور "حدیث الاسنان” ہیں، یعنی نہ عقلمند ہیں اور ان کی عمریں بھی پختہ نہیں ہوتیں، یہ فطری بات ہے کہ جو کم عقل بھی ہو اور عمر کے اعتبار سے بالغ نہ ہو تو وہ سمجھ بوجھ سے محروم رہتا ہے۔
اس لیے پوری تاریخ میں جتنے بھی باطل گروہ گزرے ہیں، ان کی تفصیلی تاریخ معلوم ہے، ان کے طبقے معلوم ہیں، ان میں بڑے بڑے علماء ہو گزرے ہیں، لیکن خوارج وہ واحد باطل گروہ ہے جس کے ہاں جید اور ممتاز علماء نہیں ہیں، یہ لوگ ہمیشہ مسائل و مشکلات میں زندگیاں گزارتے ہیں اور بقا نہیں پاتے، ان کا شر بہت زیادہ ہوتا ہےلیکن ان کی بقا اور وجود بہت کم ہوتا ہے۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ "کلما طلع قرن قطع” جب بھی یہ لوگ سراٹھائیں گے تو سر کاٹ دیا جائے گا، اسی لیے مرتب طور پران کی تاریخ، افکار اورعقائد غرض کچھ بھی موجود نہیں، باقی تمام خوارج خواہ وہ موجودہ ہوں یا گذشتہ سب کے سب اس ایک بات پر متفق ہیں کہ وہ غیر اصولی و فروعی مسائل کی بنا پرمسلمانوں کی تکفیرکرتے ہیں۔
جن باتوں کی وجہ سے یہ لوگ تکفیر کرتے ہیں وہ کبھی کبیرہ گناہ ہوتی ہیں اور کبھی گناہ نہیں بلکہ جائز اور مستحسن امر ہوتاہے، جس طرح صحابہ کے دور میں جب یہ لوگ وجود میں آئے تو انہوں نےعلی رضی اللہ عنہ، ان کے ساتھیوں اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ، ان کے ساتھیون کی تکفیر شروع کر دی۔
ان کی تکفیر کی بنیاد کوئی کبیرہ گناہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک جائز اور شرعاً مطلوب حکم تھا کہ مسلمانوں کے درمیان صلح ہو جائے، لیکن جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ یہ لوگ دین کے حوالے سے صحیح فہم نہیں رکھتے، کم عمر، کم عقل اور جذباتی ہوتے ہیں، چنانچہ انہوں نے’’ان الحکم الا اللہ‘‘ کا نعرہ بلند کیا اور اپنے سوا اس دور کے تمام مسلمانوں کی تکفیر شروع کر دی اور ان کے خلاف مسلح کارروائیاں شروع کر دیں۔
ڈاکٹر مصطفی حلمی اپنی کتاب ’’الخوارج‘‘ میں ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ومن العسیر الوقوف علی معتقدات الخوارج من واقع کتبهم فالغالب ان مکتبات المسلمین عاریة عن مؤلفاتهم‘‘۔
’’ان کی اپنی کتابوں سے ان کے عقائد معلوم کرنا بہت مشکل ہے، کیونکہ مسلمانوں کےکتب خانے ان کی کتابوں سے خالی ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ مشکل حالات میں رہتے ہیں۔‘‘
انہیں لکھنے اور تصنیف کا موقع نہیں ملتا، اسی لیے ہر دور کے خوارج اپنے فکری اور مذہبی عقائد کے لحاظ سے دوسرے دور کے خوارج سے قدرے مختلف ہوتے ہیں، لیکن سب ایک بات پر متفق ہیں کہ مسلمانوں کی ادنیٰ وفرعی امور پر تکفیرکی جائے۔
دوسرے لفظوں میں ایسا کام، عقیدہ اور عمل جو کسی کو ملتِ اسلام سے خارج نہیں کرتا، یہ لوگ انہی امور کو تکفیر کا ذریعہ گردانتے ہیں، جیساکہ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وكذلك الخوارج لما كانوا أهل سيف وقتال ظهرت مخالفتهم للجماعة حين كانوا يقاتلون الناس وأما اليوم فلا يعرفهم أكثر الناس وظهرت الخوارج بمفارقة أهل الجماعة واستحلال دمائهم وأموالهم.”
’’یہ خوارج مسلح اور جنگجو لوگ تھے، امت مسلمہ سے ان کی مخالفت اس وقت ظاہر ہوئی جب وہ مسلمانوں سے جنگ پر آمادہ ہوئے، آج اکثر لوگ ان کو نہیں جانتے، ان کا ظہور اس وقت ہوا جب انہوں نے امت مسلمہ سے جدا ہو کر مسلمانوں کے اموال و جانوں کو اپنے لیے حلال قراردیا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ خوارج بنیادی طور پر اپنے اعمال و افعال سے پہچانے جاتے ہیں، یعنی جو لوگ مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں اور ان کے خون اور مال کو مباح سمجھتے ہیں، سمجھ لیں کہ یہی خوارج ہیں، دنیا میں کوئی ایسا فرد نہیں جو اپنے آپ کو خارجی کہتا ہو، بلکہ یہ لوگ تو اپنے آپ کو پکے سنی سمجھتے ہیں۔
بعض اوقات ان کی تحریریں اہل السنۃ کے عقیدہ کے موافق بھی ہوتی ہے لیکن اس کا نفاذ و تطبیق کا طریقہ کار بالکل مختلف ہوتا ہے جیسا کہ علامہ ڈاکٹر اویس المظہر لکھتے ہیں:
"فالخوارج یتم الحکم علیهم من استقرار الاحوال و تتبع المواقف ولن تجد رجلاً منهم یصرح لک انه خارجی بل قد یکون کتبه التی یکتبها کلها موافقة لعقیدة أهل السنة و عند التنزیل یکون الأمر مختلفاً.”
’’جب تک ان کے حالات اورعقائد کی تحقیق نہ کر لی جائے، کوئی بھی ان پرحکم نہیں لگا سکتا کہ یہ خارجی ہے، کیونکہ کوئی شخص بھی اپنے آپ کو خارجی نہیں کہتا، بعض اوقات ان کی تحریریں بھی سنی عقائد کے مطابق ہوتی ہیں لیکن عملاً اس کی تطبیق و نفاذ دینی اصولوں سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔
ڈاکٹر اویس المظہر کہتے ہیں:
"ونؤکد أن المشکلة لیست فی التاصیل، فالعمومات التی یستدل بها الخوارج قدیما و حدیثاً هی عمومات صحیحة ولکنهم ینزلونها علی غیر واقعها، فالمشکلة فی التنزیل کما جاء عن السلف فی وصف الخوارج أنهم ینزلون الآیات التی نزلت فی الکفار علی المؤمنین و لذالک فمشکلتهم فی التأیل الفاسد.”
عصرِ حاضر کے خوارج کے ساتھ ہمارا اختلاف اصول و مراجع میں نہیں جن سے وہ استدلال کرتے ہیں، کیونکہ معاصر خوارج ہوں یا پرانے خوارج، یہ لوگ جن عمومی نصوص سے استدلال کرتے ہیں وہ بالکل صحیح ہیں مگران نصوص کے نفاذ و تطبیق میں وہ فاش غلطی و خطا پر ہیں۔
ان سے ہمارا بنیادی اختلاف نصوص کی تطبیق میں ہے کہ جس پر وہ چسپاں کرتے ہیں، حقیقت میں اس کا مصداق نہیں ہوتا، جیسا کہ ابن عمررضی اللہ عنہما بھی فرماتےہیں: خوارج کافروں کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کو مسلمانوں پر چسپاں کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ اصل مسئلہ ان کی غلط فہمی اور تاویل کی وجہ سے ہے۔
حافظ ابن حجر رحمه الله بھی فرماتے ہیں:
"وکان یقال لهم القراء لشدة اجتهادهم فی التلاوة والعبادة الا أنهم کانوا یتأولون القرآن علی غیر المراد منهم و یستبدون برأهم و یتنطعون فی الزهد والخشوع و غیر ذالک.”
ترجمہ: کثرت تلاوت وعبادت کی وجہ سے انہیں قراء کہاجاتاتھا(بعض روایات میں انہیں نساک کہاگیا، جس کا معنی بہت عبادت گزار کے ہے) لیکن یہ لوگ گمراہ اس وجہ سے ہیں کہ قرآن کریم کا مطلب وتفسیرحقیقت کے برخلاف من مانی کرتے تھے۔
مثال کے طور پر مسلمانوں کے درمیان مفاہمت و مصالحت کو آیت ’’ان الحکم الا للّٰہ‘‘ کے تناظرمیں شرک قرار دیا اور اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے، یہاں تک کہ اسی بات پر اپنے آپ کو قربان کرتے اوراس رائے کے مخالفین کو مرتد اور واجب القتل سمجھتے تھے۔
آج کے داعشی خوارج بھی ایسے ہی ہیں، وہ کتاب اللہ اور سنت نبوی کے معانی و تشریح میں غلطیاں کرتے ہیں، یہ لوگ سطحی علم رکھتے ہیں، ان کے ہاں متبحر اور جید علماء نہیں ہیں، قرآن وسنت کی غلط تشریح و تفسیر کر کے اس پر ڈٹ جاتے ہیں جیسا کہ حافظ ابن تیمیه رحمه الله فرماتے ہیں:
"و لکن بدعة الخوارج کما یقولون کان قصداهلها متابعة النص والرسول لکن غلطوا فی فهم النصوص و کذبوا بما یخالف ظنهم من الحدیث ومعانی الایات.”
ترجمه: خوارج کی بدعت جیسا کہ کہا جاتا ہے یہ تھی کہ وہ نصوص قرآن و سنت کی تابعداری چاہتے تھے لیکن ان نصوص کے فہم میں غلطی کر بیٹھے، یہ لوگ اس غلط فہمی پر قائم رہتے اور جو نص بھی ان کے فہم کے مطابق نہ ہوتی اس کی تکذیب کرتے۔
اسی طرح قرآن کریم کی جس آیت کا مفہوم و مطلب ان کے افکار و عقائد کے خلاف ہوتا، تو وہ اس کی تکذیب کرتے، آج کے خوارج بھی بظاہر کفر سے برأت کے نعرے لگاتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ قرآن و حدیث کو سمجھنے میں غلطی پر ہیں۔
ہر وہ عالم جو ان کی رائے سے متفق نہ ہو، وہ اسے عالم سوء کہتے ہیں، وہ ان کی نظر میں باطل پرست ہے، ہر وہ حدیث اور قرآن کی وہ تفسیرجو ان کے باطل خیالات اور عقائد کے خلاف ہو، اس کی تضعیف و تکذیب کرتے ہیں جیسا کہ وہ بہت سے مسلمانوں، اسلامی جماعتوں اور تحریکوں کی مباح، گناہ حتی کہ کسی جائز عمل پر بھی تکفیرکرتے ہیں۔