سیاسی پروگراموں، بحثوں اور سوشل میڈیا پر امارت اسلامی پر ایک مضحکہ خیز تنقید یہ کی جاتی ہے کہ امارت اسلامیہ افغانستان آخر کس اسلامی ملک جیسے نظام کی خواہاں ہے؟ جو نظام افغانستان میں چل رہا ہے، وہ کہتے ہیں کہ آیا یہ سعودی عرب، ایران، ترکی یا کسی دوسرے اسلامی ملک کے نظام جیسا ہےیا ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے، تو پھر وہ کس طرح کا مختلف اسلام اور نظام چاہتے ہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسی تنقیدیں مغربی ذہنیت اور افکار کا نتیجہ ہیں، وہ لوگ جو اسلام کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں کرتے اور محض روایتاً مسلمان ہیں، یہ طبعی امر ہے کہ وہ اسلام کو تحقیق اور غور و فکر کے بجائے افراد، ممالک اور موجودہ اسلامی ممالک کے سیکولر اور مغرب پسند نظاموں کے ذریعے سمجھتے اور سمجھناچاہتے ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ اسلامی ممالک کی موجودہ صورت حال اور نظاموں پر سوالیہ نشان کھڑا ہے، جو کچھ آج سعودی عرب، ترکی، تاجکستان، ازبکستان، مصر اور دیگر ممالک میں ہو رہا ہے، کیا ہم اسے اسلامی نظام اور ریاست کہہ سکتے ہیں؟
وہ جمہوری اسلامی نظام جس کے انتخابات کی فنڈنگ اور امیدواروں کو رقم امریکہ کے ترقیاتی اداروں اور دیگر مغربی ممالک کے بجٹ سے ملتی ہو، کیا وہ اسلام کی نمائندگی کر سکتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ افغانستان اس وقت اسلامی دنیا کا واحد ملک ہے جو ایک جداگانہ اور منفرد نظام رکھتا ہے، ایسا نظام جو بیرونی دباؤ، حمایت اور استعماری مقاصد سے آزاد ہو کر اسلام کے مبارک دین کی اقدار اور افغان عوام کی خواہشات کے مطابق قائم کیا گیا ہے، یہ ایسا نظام ہے جس میں نہ صرف فوجی طاقت ہے، بلکہ ملک کے انتظامی امور کے لیے انتظامی صلاحیت اور مالی خودمختاری بھی موجود ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ عالمی سیاست اور تعلقات کا تجربہ بھی حاصل ہے۔
ایک نظام کی پائیداری کے لیے اس کی بنیادی اور فکری حکمت عملی کو سب سے اہم ستون سمجھا جاتا ہے، یا اسے پائیداری کا محور کہا جا سکتا ہے۔ تو امارت اسلامی اس خصوصیت سے مکمل طور پرمتصف ہے، کیونکہ اس کا اصل محور اسلامی شریعت ہے، جو نہ صرف شعار میں بلکہ عمل میں بھی نافذ کی گئی ہے اور حقیقت میں یہ افغان مسلمان عوام کی خواہش ہے۔
گزشتہ سو سال سے زائد عرصے میں افغان عوام نے تین مختلف سلطنتوں کے خلاف جو مزاحمت کی ہے وہ صرف اور صرف اپنے دین اور اقدار کے تحفظ کے لیے تھی۔ اور اب جب کہ امارت اسلامی کے قیام کے ساتھ وہ آرزو پوری ہوئی ہے، تو یہ قدرتی بات ہے کہ عوام کی خواہشات کے پورا ہونے کے نتیجے میں قومی جواز اور قانونی حیثیت کا مسئلہ بھی حل ہو چکا ہے۔
عالم اسلام کے تقریباً تمام ممالک میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے جسے مکمل طور پر شریعت پر قائم کہا جا سکے، جہاں تمام اصول اور پالیسیوں کی منظوری ایک ایسے امیر کی جانب سے دی جائے جو قرآن اور حدیث کا ماہر اور مدرس رہا ہو، کیونکہ امارت اسلامی کا قائد خود بار بار یہ کہہ چکا ہے کہ اگر کوئی حکم یا فرمان قرآن اور حدیث کے خلاف ہو، تو ایک عام افغان بھی اسے رد کرنے اور اس پر تنقید کرنے کا حق رکھتا ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور اہم موضوع جو اہمیت رکھتا ہے، وہ وزراء، شوریٰ کے ارکان اور دیگر ذمہ داروں کا ہے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ ان کے پاس حکومتی امور میں مہارت کی بلند ترین سطح نہ ہو، لیکن وہ دین، وطن اور عوام کے ساتھ اپنے عہد و پیمان پر کاربند ہیں، ماضی کے تجربات نے یہ ثابت کیا ہے کہ افغانستان میں عزم یا ایمانداری کے بغیر کوئی بھی مہارت کسی صورت میں کامیاب نہیں ہو سکتی، اور دو یا تین ملکی شہریت رکھنے والے رہنما کبھی بھی ملک کے مفاد وبھلائی کا ذریعہ بننے کے قابل نہیں۔
افغانستان میں جاری بڑے اور چھوٹے منصوبے ماہر افراد کے ذریعے عمل میں لائے جا رہے ہیں، لیکن ان کے پیچھے عہدِ صادق اور اصولوں و اقدار کی پاسداری کرنے والے رہنما وزراء، رؤساء کھڑے ہیں۔
اسی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ امارت اسلامی نہ صرف موجودہ اسلامی ممالک کے حکومتی نظاموں کے لیے، جو اکثر جمہوری یا بادشاہی ہیں، ایک مثالی اور حقیقی اسلام پر قائم نظام ہے، بلکہ مغربی یا کفری ممالک کے لیے بھی عوام کی خواہشات کے احترام، خدمت اور باہمی حمایت کے حوالے سے ایک مثالی نظام سمجھا جا سکتا ہے، کیونکہ اس کے نتیجے میں عوام کو امن، خوشحالی اور قومی مفاہمت کے ماحول میں زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کیے گئے ہیں۔
بیرونی مغرض عناصر، خفیہ ایجنسیوں اور دیگر پراکسی گروپوں کے لیے افغانستان میں دخل اندازی کرنے کا کوئی موقع یا جگہ نہیں ہے، شاید اسی وجہ سے دنیا اس وقت افغانستان کے بارے میں ماضی سے زیادہ زیادہ پُرامن اور پُراعتماد ہے، ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات کا توازن بھی اس پُرامن فضا کو مزید مستحکم کررہا ہےاور سب اس وقت اچھی نیت اور امن کے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔