دنیا کے دجالی کفار نے پچھلے سو سال سے نئے حربوں کا استعمال شروع کر رکھا ہے اور پوری اسلامی دنیا کو باہمی جنگوں میں جھونک دیا ہے۔ روئے زمین پر موجود تقریباً ۵۷ اسلامی ممالک ایک دوسرے کے ساتھ داخلی، ہمسایگی، دفاعی جنگوں میں مصروف ہیں، جس سے ان کی سابقہ عزت و وقار محو ہو چکا ہے۔ وہ صرف اپنے معاشی اور سیاسی مفادات کے بارے میں سوچتے ہیں اور غفلت کی گہری نیند میں غرق ہیں۔
یہود اور عیسائی اپنے جنگی حربوں میں کامیابی حاصل کرچکے ہیں اور دنیا کے سامنے اپنے آپ کو ترقی یافتہ کی حیثیت سے شناخت کروا چکے ہیں، کیونکہ مسلمانوں کے ہاتھ اور پیر خود اپنی ہی مشکلات کی زنجیروں جکڑی گئی ہیں۔ ایک طرف تو مسلمان اپنے ذاتی مسائل میں اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ وہ کسی بھی دوسرے اقدام کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے، کیونکہ وہ اپنے مسائل سے آزاد نہیں ہو پائے ہیں، دوسروں کی مدد کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس وقت دنیا کے تمام اسلامی ممالک اپنی مشکلات، دکھ، درد کے ساتھ اکیلے ہیں اور ’’وا معتصماہ‘‘ کا نعرہ لگا کر بھی انہیں کوئی انسان زاد ان کی مدد کے لیے نظر نہیں آتا۔
افغانستان بیس سال امریکی قبضے کے تحت تباہ حال اور یہاں کی عوام در بدر کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے، دنیا میں کوئی نہ تھا جو اس حال میں ان کی دلجوئی کرتا اور نہ ہی کسی نے مدد کا ہاتھ بڑھایا۔ صرف اللہ تعالی نے اپنی طاقت اور قوت دکھائی اور آزادی کے راستے پر تھکے ہوئے مجاہدین کو معجزانہ فتح سے نوازا۔
مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد الاقصیٰ تقریباً ۷۰ سال سے صہیونی اسرائیلیوں کے ہاتھوں میں ہے۔ فلسطینی عوام ہر دن ظلم اور درد کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں، آئے دن ان پر بھاری بھر کم بم برسائے جارہے ہیں، ان کے بچے مسجدوں، اسکولوں اور مدارس میں شہید ہو رہے ہیں، نوجوان یونیورسٹیوں اور شہروں میں ہاتھ پاؤں سے معذور ہو رہے ہیں اور بزرگ اپنے گھروں میں دفن ہو رہے ہیں، اس سب کے باوجود کوئی ایک اسلامی ملک ان کی مدد کے لیے نہیں اٹھا نہ ہی دشمنوں کے خلاف کوئی حرکت دکھائی، سارا عالم اسلام خواب خرگوش کی نیند سویا ہواہے۔
وہ مبارک سرزمین جو بہت سے پیغمبروں کی جائے پیدائش و جائے وفات ہے، وقت کے جابروں کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار ہوئی۔ ان جابروں نے اس سرزمین پر ظلم و ستم کی ایک نئی لہر شروع کی اور شام کی حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی۔ صرف اسد خاندان نے ۱۹۷۱ء میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے شام پر قبضہ کیا اور حکومت کو اپنے لیے موروثی سمجھا۔ اس خاندان نے اتنے مظالم ڈھائے کہ چنگیز خان کی یاد تارہ کرڈالی اور گوانتانامو کے مظالم صیدنایا جیل کی داستانوں کے آگے ہیچ دکھنے لگیں۔
بالآخر اللہ عزوجل نے ان مظلوم مسلمانوں پر رحم فرماتے ہوئے ۲۰۲۴ء کے دسمبر کی آٹھ تاریخ کو جہادی تحریکوں کے مشترکہ اتحاد ھیئۃ تحریرالشام کو جس کی قیادت احمد الشرع الجولانی کر رہے تھے، گیارہ دنوں کے اندر شام کی عظیم فتح سے نوازا۔
اگرچہ عالم اسلام محوِ خواب غفلت اور جتنے بھی ظلم و ستم مسلمانوں پر ڈھائے جا رہے ہیں، وہ صرف تماشا دیکھ رہے ہیں، کچھ بے ضمیر ممالک تو دشمن کے صف میں کھڑے ہو کر مسلمانوں پر روا رکھے جانے والے جبر و ستم میں مکمل شریک ہیں، مگر اللہ عزوجل نے تمام دنیا کو یہ دکھا دیا کہ کامیابی نہ تو تعداد میں ہے اور نہ ہی وسائل کی فراوانی میں بلکہ فتح اُس گروہ کا مقدر بنتی ہے جو اللہ کے احکام کو تسلیم کرتا ہو اور جو اپنے رب کے پسندیدہ بندے ہوں۔
ان شاندار فتوحات کے سلسلے میں ہم افغانستان اور شام کی مثالیں دے سکتے ہیں، جہاں بہت کم وسائل کے باوجود، دونوں ممالک نے ۱۱ دنوں کے اندر اندر اسلامی عظمت کو مجاہدین اسلام کی جانفشانی اور اللہ کی مدد ونصرت سے دوبارہ کامیابی حاصل کی اور قبضے، ظلم وستم کی تاریک رات کو اپنا خونِ جگر دے کر صبح پُرنور بخشی، ان شاء اللہ رب عزوجل غزہ کے مظلوم، بے یار و مددگار عوام کی آہ کو ضرور سنے گا اور انہیں ایک عظیم فتح نصیب کرے گا۔
وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزٍ۔