امت مسلمہ کے اسبابِ زوال | تیسری قسط

مفتی بشیر احمد مہاجر

جہاد عظیم اوراہم فرض ہے، جس کی جتنی فضیلت ہے، ویسے ہی اس کے ترک کرنے میں امت کی ذلت و رسوائی ہے، تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں جہاد و دفاع چھوڑ دیتی ہیں، اس قوم کی آخری نسل بے غیرت، فحاش، بے حوصلہ اور خواہشات کی دلدادہ بن جاتی ہے۔

اللہ عزوجل نے اپنی کتاب قرآن کریم میں متعدد بار اس بات پر زور دیا ہے کہ تم جہاد کرو! یہ تمہارے لیے بہترین تجارت ہے، تم جہاد نہ چھوڑو کیونکہ یہ تمہارے لیے عزت ہے؛ لہذا واضح ہے کہ اگر کوئی شخص آج کے دور میں اپنے مال اور جان کے ذریعے جہاد کرنا چھوڑ دیتا ہے اور خود کو دنیاوی امور اور خواہشات میں مصروف رکھتا ہے، تو یہ اس کے لیے بڑا نقصان، ذلت، معصیت اور ناکامی کا سبب ہے۔

۲۔ جہل:

جہالت ان اسباب میں سے ایک سبب ہے جس کی وجہ سے امت مسلمہ ناکامی اور زوال سے دوچارہوئی ہے۔ جہالت خود اپنی نوعیت میں دو قسموں پر مشتمل ہے:

۱: شرعی جہالت
۲: عصری جہالت

۱۔ شرعی جہالت:

یہ وہ جہالت ہے جس میں مسلمان شریعت کے احکام سے غافل اور بے خبر رہتے ہیں، چاہے وہ دین اسلام کی ضروریات ہوں یا عقائد، فرض عبادات ہوں یا دیگر جائز معاملات۔

اگر ان تین امور میں سے صرف عقائد کمزور ہوجائیں تو مسلمان ایمان پر قائم نہیں رہ سکتا اور اگر عبادات میں کمزوری ہو تو اللہ تعالیٰ کے دین سے دوری پیدا ہوتی ہے، اگر معاملات میں کمزوری ہو تو پھر انسان کو حلال و حرام کی تمیز نہیں رہتی اور اسے یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آیا وہ حلال کما رہا ہے یا حرام، کیا وہ اپنے حق کو لے رہا ہے یا کسی اور کا حق چھین رہا ہے؟

۲۔ عصری جہالت:

یہ وہ جہل ہے جس میں امت مسلمہ نے عصری علوم سیکھنے سے غفلت برتی ہے، جیسے ٹیکنالوجی، طب اور دیگر جدید فنون میں غفلت اختیار کرنا، کیونکہ امت مسلمہ ماضی میں عصری علوم میں دنیا بھر کے انسانوں کے لیے ایک مرجع کی حیثیت رکھتی تھی، یہاں تک کہ صلیبی حکمران اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے مسلمانوں کے مدارس و جامعات میں بھیجتے تھے۔

وہ جدید عصری علوم جو مسلمانوں نے نہیں سیکھے بلکہ اپنے اسلاف کی میراث میں ملے ہوئے علوم کو بھی درخور اعتناء نہ سمجھا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم ایک معمولی سوئی بھی نہیں بنا سکتے، فرض کریں کہ اگر ہم سوئی بنا بھی لیں، تو اس میں سوراخ کرنے کے لیے دوسرے ملک سے مدد لینی پڑتی ہے، یہ وہ زوال ہے جس سے ہم مسلمان گذشتہ دو صدیوں سے دوچارہیں۔

یہ جہل وہ مرض ہے جس میں ہم نہ صرف جدید دنیا میں پیچھے رہ گئے ہیں بلکہ عالم اسلام میں بھی تنہا واکیلے ہیں۔

امت مسلمہ کی اکثریت جہاد سے کیوں پیچھے بیٹھی ہوئی ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ اکثر مسلمان نوجوان اپنے دین اسلام سے آگاہ نہیں ہیں اور جہاد کی اہمیت، قدر و منزلت ان کے دلوں سے نکل چکی ہے، اور یہ سب کچھ جہالت وعدم علم کا نتیجہ ہے۔

فائدہ:

اگر امت مسلمہ چاہتی ہے کہ ایک بار پھر دنیا کا مقابلہ کرے اور اپنی عظمت رفتہ کو پھرسے حاصل کرے، تو اسے سب سے پہلے جہاد کی طرف رخ کرنا پڑے گا، اور پھر اپنے اندر سے شرعی اور عصری جہل کو ختم کرنا پڑے گا، کیونکہ آج امت مسلمہ نے دین اسلام اور مذہب کو صرف علماء اورطلباء کا کام سمجھ رکھا ہے اور عصری علوم کو پس پشت ڈال دیا ہے، جس کے نتیجے میں امت مسلمہ نقصان اور خسارے میں ڈوب چکی ہے۔

۳۔ علم ناقص:

امت مسلمہ کا تیسرا سب سے بڑا مسئلہ علم ناقص ہے، مشہور ادیب امیرالبیان، شکیب ارسلان اپنی کتاب "لماذا تأخَّر المسلمون وتقدَّم غیرهم” میں لکھتے ہیں:

’’مسلمانوں کے زوال کا سب سے اہم سبب ناقص علم ہے اور ناقص علم جہالت سے بھی زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ جب جاہل کسی عالم کے ساتھ ہوتا ہے تو وہ عالم کی بات مانتا ہے اور اس کی اطاعت کرتا ہے، جبکہ ناقص علم رکھنے والا شخص خود بھی کسی چیز سے آگاہ نہیں ہوتا اور اس بات پر قناعت نہیں کرتا کہ میں اس چیز سے ناواقف ہوں‘‘۔

مشہور مقولہ ہے ’’نیم حکیم خطرۂ جان نیم ملّا خطرۂ ایمان‘‘۔ لہذا امت مسلمہ کا سب سے بدترین مرض علمِ ناقص ہے، کیونکہ ہر شخص اپنے کام و شعبے میں ناقص ہوتا ہے، لیکن پھر بھی خود کو مکمل سمجھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس طریقے سے ترقی حاصل نہیں کی جا سکتی۔

اگر انجینئر انجینئرنگ میں کمزور ہو، ڈاکٹر طب میں کمزور ہو اور یونیورسٹی کا استاد تدریس میں کمزور ہو تو یہ وہ ناکامیاں ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ پوری قوم و ملت کی پسماندگی اور زوال کا سبب بنتی ہیں۔

۴۔ علماء سوء اور مفسد حکام:

یہ وہ بڑا سبب ہے جو آج امت مسلمہ میں پیدا ہو چکا ہے، کیونکہ قیادت اور رہنمائی ان دونوں قسم کے افراد کے ہاتھوں میں ہے، اس وجہ سے فساد اور بربادی خود بخود جنم لیتی ہے۔

Author

Exit mobile version