چند دن قبل لبنان میں ایک ہی وقت میں متعدد شہروں میں مواصلاتی اور پیغام رسانی کے آلے (پیجر) کے پھٹنے سے 2,700 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔ اس سے اگلے دن بھی یہ حملے جاری رہے اور وائر لیس مواصلاتی آلات اور دیگر طرح طرح کی الیکٹرانک ڈیوائسز کے پھٹنے کے واقعات رونما ہوئے۔ ادھر بعض اسرائیلی حکام کے مطابق یہ واقعہ حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کی سائبر جنگ ہے۔
لیکن سائبر جنگ ہے کیا؟
اس طرح کے حملوں میں اہم اداروں کے خلاف حملے، آن لائن سروسز میں خلل، انٹیلی جنس سسٹم میں دراندازی اور انٹرنیٹ چینلز تک رسائی شامل ہیں۔
سائبر جنگیں ۱۹۹۰ء اور ۲۰۰۰ء کی دہائی کے اوائل میں شروع ہوئیں، جب انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل ڈیوائسز میں اضافہ ہوا تو سائبر خطرات میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا۔
یہ جنگ بین الاقوامی سطح پر تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور اس کی مختلف شکلیں ہیں:
تاریخ اور پس منظر:
۱۹۹۰ء کی دہائی: انٹرنیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ، سائبر حملے ایک نئے خطرے کے طور پر ابھرے۔ اس وقت، ہیکرز اور آزاد گروپوں نے پہلے حملے شروع کیے جیسے وائرس والے (نقصان دہ) پروگرام شروع کیے۔
۲۰۰۰ء کی دہائی: اس دہائی میں سائبر حملے مزید پیچیدہ ہوگئے اور اس سے حفاظت کے لیے مخلتف ممالک نے مخصوص شعبے قائم کیے، اس دوران سب سے اہم حملہ ۲۰۱۰ء میں سٹکسنٹ حملہ ہے جس میں ایران کے ایٹمی پروگرام کو نشانہ بنایاگیا۔
سائبر حملوں کی قسمیں:
- DDoS حملے (Distributed Denail of Service): اس قسم کے حملوں میں بہت زیادہ ڈیٹا (ٹریفک) بھیج کر کمپیوٹر کے سرورز کو مفلوج کر دیا جاتا ہے۔
- نیٹ ورک تک رسائی (Network Infiltration): اس میں مختلف ذرائع سے سرکاری یا ادارہ جاتی معلومات اورنظام تک غیر قانونی رسائی شامل ہے۔
- وائرس اورنقصان دہ سافٹ وئیر (Malwares): کمپیوٹر سسٹمز کو نقصان پہنچانے کے لیے بنائے گئے نقصان دہ پروگرام۔
مقاصد اور نتائج:
مقاصد: اس حملے کا مقاصد میں اہم بنیادی سسٹم میں خلل ڈالنا، بنیادی معلومات چوری کرنا، عوامی عدم اعتماد پیدا کرنا، اور حکومتوں یا اداروں کو نقصان پہنچانا شامل ہو سکتے ہیں۔
نتائج: معاشی نقصانات، اعتماد میں کمی، عوامی خدمات میں خلل اور خاص حالات میں سیاسی اور فوجی کشیدگی میں اضافہ۔
اس سے حفاظت اور روک تھام:
سائبر سیکیورٹی پالیسیاں بنانا اور ان پر عمل درآمد: اس کے لیے ممالک اور ادارے اپنی معلومات اور سسٹمز کی حفاظت کے لیے سائبر سیکیورٹی پالیسیاں اور معیارات تشکیل دے رہے ہیں۔
آگاہی اور تربیت: ملازمین اور صارفین کو سائبر خطرات اور روک تھام کے طریقوں کے بارے میں آگاہی دینا۔
سائبر جنگ اور بین الاقوامی سیاست:
تنازعات میں سائبر ٹولز کا استعمال: مختلف ممالک سائبر حملوں کو بین الاقوامی تنازعات اور جنگوں کے دوران اسٹریٹجک ٹول کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔
بین الاقوامی تعاون: بین الاقوامی سائبر خطرات کو روکنے کے لیے، بین الاقوامی تنظیموں کے درمیان تعاون اور معلومات کے تبادلے میں اضافہ ہوا ہے۔
سائبر وارفیئرڈیجیٹل دور میں ایک اہم اور پیچیدہ معاملہ بن چکا ہے جس پر بین الاقوامی سلامتی کے اداروں سے خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔