امت کے جسم پر گہرے زخم | پہلی قسط

ابوهاجر الکردی

بلاشبہ امت کو پیش آنے والے تاریخی واقعات کے حوالے سے مؤرخین نے اپنی تاریخوں اور تحقیقات میں جامع و مفصلا لکھا ہے اور یہ کتابیں میری تحریر کے مقابلے میں زیادہ فائدہ مند اور مؤثر ہوں گی لیکن میں چاہتا ہوں کہ اپنے ناتواں قلم، کمزور انگلیوں اور جذبات سے بھرے دل کے احساسات کو لکھوں۔

ہوسکتا ہے کہ بعض حضرات کو یہ نامناسب لگے کہ امت اور مسلمانان عالم کو گذشتہ زمانوں میں پیش آنے والے گہرے زخموں کو تازہ کروں، لیکن یہ لکھنے سے میرا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ تمام مظالم اور گہرے زخم جو مسلمانان عالم کو دنیا کے مختلف خطوں میں لگے، انہیں کبھی بھلایا نہ جائے۔

اگر ہم اپنی تاریخ کو بھول بیٹھے، ہمارے نوجوان ان مجرمین کے راستے پر چل پڑیں گے جن کے ماتھے پر یہ تمام مظالم کلنک کا ٹیکا تھے اور آج ہمارے نوجوانوں کو اپنے دام میں پھنسانے کے لیے پر تول رہے ہیں۔

ہم اس وحشت و بربریت کے حوالے سے لکھنا چاہتے ہیں، جنہوں نے دھونس، لالچ کے ذریعے امت کے تمام وسائل کا استحصال کیا، ان وحشی درندوں کا ذکرکرنا چاہتے ہیں جو جمہوریت اور انسانی حقوق کے نعرے لگاتے ہیں مگر انہی کی نگرانی میں ہزاروں بچوں، عورتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جا رہا ہے۔

وہ لوگ جن کے سینے میں دل کے بجائے پتھر اور ذہن عصبیت سے آلودہ ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو سینکڑوں جرائم کا سبب ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو ہزاروں کلو گرام بموں کے ذریعے غزہ اور سوڈان میں لاکھوں معصوم مسلمانوں کو قتل کر چکے ہیں، لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر کے دشت و صحراؤں کو اپنا مسکن بنانے پر مجبور کر رہے ہیں۔

Author

Exit mobile version