خطۂ عرب میں اسلام سے پہلے کئی ادیان و مذاہب موجود تھے، بعض کا یہ عقیدہ تھا کہ دنیا میں تمام تغیر و تبدل گردشِ زمانہ یا فطرت کی وجہ سے ہو رہا ہے، اللہ تعالیٰ کا کوئی وجود نہیں (العیاذ بالله)۔
بعض عرب بتوں کی عبادت اس دلیل پر کرتے کہ یہ بت اللہ کے ہاں ہمارے لیے وسیلہ اور ذریعہ ہیں۔ قبیلہ ثقیف طائف میں لات نامی بت، قریش مکہ معظمہ میں عزی نامی بت اور اوس و خزرج مدینہ منورہ میں منات نامی بت کی عبادت کرتے تھے۔
انسانوں کو بتوں کے نام پر قربان کیا جاتا تھا، والد کی منکوحہ اولاد کو میراث میں ملتی، سگی بہنوں سے نکاح کیا جاتا، عورتوں کا مہر مقرر نہیں تھا، زنا اور شراب عام تھے، بے حیائی اور فحاشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عرب کا سب سے نامور شاعر اور شہزادہ امرء القیس نے اپنے قصیدے میں خالہ زاد بہن سے زنا کا قصہ بڑے فخر سے بیان کر کے کعبے کے دروازے پر آویزاں کیا۔
جادو کا رواج عام تھا، جس کو سیکھنے کے لیے بہت سے لوگ شیطان سے مدد مانگنے کے لیے مجاہدات کرتے۔
بدفالی:
عرب اپنی روزمرہ کی زندگی میں بہت سی اشیاء بدفالی میں شمار کرتے، کوے کو جدائی کا سبب گردانتے، گونگے انسان کی آواز کو موت اور تباہی سے تعبیر کرکے اسے منحوس سمجھتے۔
خانہ جنگی اور دشمنیاں:
جاہلیت کے زمانےمیں چھوٹی سی بات پر لڑائی شروع ہوتی اور سالہا سال سینکڑوں افراد اس کی بھینٹ چڑھتے، اگر ان جنگوں کے اسباب کی تحقیق کی جائے تو کوئی ایک جنگ بھی کسی معقول وجہ سے نہیں شروع ہوئی۔ خلاصہ یہ کہ جو شخص لڑائی میں ماہر ہوتا اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا، جنگی سازوسامان کو اہمیت دی جاتی، یہی وجہ ہے کہ آج بھی عربی زبان میں گھوڑے اور تلوار کے سینکڑوں نام رکھے گئے ہیں۔
عشق اور ناجائز تعلقات:
زمانہ جاہلیت میں عورتوں کا مردوں سے کسی قسم کا پردہ نہ تھا، یہی وجہ تھی ان کے درمیان ناجائز تعلقات عام تھے، جس شخص کے کسی عورت سے تعلقات نہ ہوتے اسے برا سمجھا جاتا، عشق و معشوقی قابل فخر کارنامہ سمجھا جاتا یہاں تک کہ بعض قبائل عاشقی میں شہرت رکھتے تھے جیسے قبیلہ بنی عذرہ۔
بیٹیوں کو زندہ درگورکرنا:
قریش اور بنی تمیم قبائل میں بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کا رواج عام تھا، یہ لوگ اسے فخر سمجھتے، اس حوالے سے وہ اس قدر جری ہوگئے تھے کہ جب بیٹی پانچ، چھ سال کی ہوجاتی تو اسے صاف ستھرے کپڑے پہنائے جاتے اور کسی بہانے سے گھر سے باہر لے جاتے، ظالم باپ نے پہلے سے ایک گہرا گڑھا کھود رکھا ہوتا، جس میں اسے دھکا دے کر گرا دیا جاتا، یہ معصوم اپنے باپ سے فریاد کرتی لیکن وہ ظالم اس پر مٹی ڈال کر اپنے گھر روانہ ہو جاتا۔ یہ ظلم عرب کے بعض قبائل میں زیادہ اور بعض میں نسبتا کم تھا۔ بنو تمیم کے ایک فرد قیس بن عاصم نے اپنی دس بیٹیوں کو زندہ درگور کیا۔
لوٹ مار اور چوری:
دین اسلام سے پہلے شہری لوگ اگر ہمسائے کے حقوق کا خیال رکھتے تو دوسری طرف ان کے اندر دھوکہ دہی عام تھی، جو لوگ خانہ بدوش تھے وہ لوٹ ماری اور چوری چکاری میں مشہور تھے، اگر وہ راستے میں کسی اکیلے شخص کو دیکھتے تو اس کے پاس موجود تمام چیزیں چھین کر اسے غلام بنا لیتے اور بعد میں اسے دوسروں کے ہاتھ بیچ ڈالتے، صحراؤں میں پانی کے کنووں کو گھاس سے ڈھانپ دیتے تاکہ مسافر پانی نہ ہونے کی وجہ سے مر جائے اور اس کا مال و اسباب ڈاکووں کے ہاتھ لگ جائے، بعض افراد تو چوری اورانسان آزاری میں اس قدر ماہر و مشہور تھے کہ ان کے نام ہی ذؤبان العرب (عرب کے بھیڑیے) رکھ دیے گئے تھے۔
زمانہ جاہلیت کے رسم و رواج:
جب کوئی مرجاتا تو اس کی اونٹںی کو اس کی قبر کے پاس باندھ دیتے یا اس اس کی آنکھوں کو کسی کپڑے سے ڈھانپ لیتے یا اس کا سر سینے سے کس لیتے اور اونٹنی کو اس دردناک حالت میں چھوڑ دیتے یہاں تک کہ وہ مرجاتی، یہ کام اس عقیدے پر کیا جاتا کہ مردہ جب دوبارہ زندہ ہوگا تو اس اونٹنی پر سوار ہو کر آئے گا۔
ان کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ جب کوئی شخص کسی شہر میں داخل ہوتا اور وہاں کسی بیماری کا خطرہ ہوتا تو وہ شہر کے دروازے پر کھڑے ہوکر گدھے کے طرح ہینکتا تاکہ وہ اس مرض سے محفوظ رہے۔
جب کسی کے اونٹوں کی تعداد ایک ہزار ہو جاتی تو وہ ایک اونٹ کی آنکھیں نکال کر اسے یونہی چھوڑ دیتا تاکہ دیگر اونٹ نظر بد سے محفوظ رہیں۔
جب کسی اونٹ کو خارش کی بیماری لگ جاتی تو بیمار اونٹ کی جگہ صحیح و سالم اونٹ کو داغا جاتا کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ تندرست اونٹ کی وجہ سے بیمار اونٹ ٹھیک ہو جاتا ہے۔
جب کوئی بیل پانی نہ پیتا توتمام بیلوں کو مارا جاتا کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ جنات ان بیلوں کو قابو کر چکے ہیں اور وہی انہیں پانی پینے سے روک رہے ہیں۔
جب ان میں سے کوئی سفر کے لیے روانہ ہوتا تو ’’ارتم‘‘ نامی ایک پتلی لکڑی کو گرہ لگاتا پھر جب سفر سے واپس ہوتا تو دیکھتا اگر گرہ اپنی حالت پر ہوتی تو اس کا مطلب ان کے نزدیک یہ تھا کہ اس کی بیوی نے اس کی غیر موجودگی میں کسی سے ناجائز تعلق نہیں رکھا اور اگر گرہ کھلی ہوتی تو یہ لوگ یقین کر لیتے کہ اس کی بیوی نے کسی سے بدکاری کی ہے۔
تیرکش میں تین تیر رکھے ہوتے، ایک پر ’’نہیں‘‘ دوسرے پر’’ہاں‘‘ اور تیسرے پرکچھ نہیں لکھا ہوتا، جب کسی کام کا ارادہ کرتے تو تیرکش میں ہاتھ ڈالتے اور ایک تیر نکالتے، اگر ہاں والا تیر نکل آتا تو وہ کام کرتے، اگر نہیں والا تیر نکل آتا تو اس کام سے رک جاتے اور تیسرے تیر کے نکلنے پر دوبارہ ہاتھ ڈالتے۔
ان کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ اگر مقتول کا قصاص نہ لیا جائے تو اس کی کھوپڑی سے’’ھامہ‘‘ نامی پرندہ نکلتا ہے اور انتقام لینے سے پہلے تک وہ آوازیں لگاتا ہے کہ میں پیاسا ہوں، میں پیاسا ہوں۔
ان کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ ہر انسان کے پیٹ میں ایک سانپ ہے جب وہ بھوکا ہوتا ہے تو انسان کی پسلیوں کو کھانا شروع کردیتا ہے۔
یہ بھی ان کا گمان تھا کہ جس عورت کے بچے مر جاتے ہیں وہ کسی مردے کے جسم پر اچھل کود کرے تو اس کی اولاد نہیں مرے گی۔
جب حضرت انسان جہالت کی اس پستی میں گرا ہوا تھا، ہر سو فتنے فساد کا بازارگرم تھا، ایسے حالات میں زمانہ ایک ایسی شخصیت کا منتظر تھا جس کے ظہور کے لئے ہزاروں سال انتظار کرنا پڑا تھا۔
آسمان کے ستارے بھی اس دن کے لیے ازل سے راہیں تک رہے تھے، آسمان بھی سالہا سال سے اس صبح تاباں کی امید پر دن رات سرگرداں تھا۔
قضا و قدر کے فرشتوں کی مبارک مجلسیں، عناصر کائنات کی رنگینی، سورج اور چاند کی رعنائیاں، بادلوں اور ہواؤں کی گردش، ابراہیم علیہ السلام کی توحید، یوسف عليه السلام کا جمال، موسیٰ عليه السلام کے معجزے اور عیسی عليه السلام کے معجزاتی علاج یہ تمام امور اس لیے تھے کہ آقائے دوجہاں کی خدمت اور کام آئیں گے۔
جی ہاں! یہی وہ دن تھا جب کسریٰ محل لرز اٹھا، فارس کے آتش کدے بجھ گئے، عجم کی شان، رومیوں کا رعب و دبدبہ، چین کے محلات گر گئے، گمراہیوں کی تاریکی چھٹنے لگی، بت کدوں سے خاک اڑنے لگی، مجوسیت کا غلغلہ دم توڑ گیا، عیسائیت کے خزاں خوردہ پتے مرجھا گئے، شرک و توہم پرستی کے بادل چھٹ گئے اور توحید کا نعرہ بلند ہوا، ہدایت کی روشنی چہار سو پھیلنے لگی، انسانیت کے آئینے میں قدسی نورکی روشنی پھوٹ پڑی یعنی عبداللہ کے یتیم، بی بی آمنہ کے جگرگوشہ، حرم کے بادشاہ، عرب کے حکمران، سرکار کونین ربیع الاول کی نویں یا بارہویں تاریخ پیر کے روز دنیا میں تشریف لائے۔
یاد رکھیں!
یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ رسول الله ﷺ کی بعثت تمام انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک عظیم الشان نعمت اور تمام شر و فساد کے خاتمے کی نوید تھی، اس نعمت کا شکر ادا کرنا ہم سب پر واجب ہے جس کا طریقہ صرف یہ نہیں کہ میلاد النبي ﷺ کے جلسے جلوس منعقد کئےجائیں، صدقے اور خیرات دیے جائیں بلکہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ رسول الله ﷺ کی سنتوں کا اتباع کیا جائے، ان کے لائے ہوئے دین جو آج دنیا میں بے یار و مددگار اور اجنبی بن گیا ہے، جس پر ہرجانب سے حملے کیے جا رہے ہیں اس کی خدمت کی جائے، اس کا دفاع اور اسے زندہ کیا جائے، زمانہ جاہلیت کے تمام رسوم و رواج، بدعات و منکرات جو آج ہمارے معاشروں میں رائج ہیں انہیں ختم کیا جائےاورتمام دنیا پر اس برحق دین کا ایسے بول بالا کر دیا جائے جیسا کہ رسول الله ﷺ کے زمانے میں تھا اور ایک بار پھر دورنبوی کی یاد تازی کردی جائے۔