اسلام کے سیاسی نظام میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک بنیادی رکن ہے، لہذا اسلامی حکومت کو چاہیے کہ اس رکن کو بہتر سے بہترین انداز میں نافذ کریں۔
چند دن پہلے مذکورہ وزارت نے اپنے امور کو منظم اور بہتر انداز میں سر انجام دینے کے لیے ایک قانون بنایا جسے امیرالمومنین حفظہ اللہ کی تصدیق کے بعد نشر کیاگیا۔
اس قانون کے نفاذ سے تمام عوام خوش ہیں کیونکہ اس کے نفاذ کے بعد کوئی خودسری نہ کرسکے گا، کسی کے حقوق پامال نہیں ہوں گے اور یہ کام ایسے افراد کے سپرد کیے جائیں گے جو شرعی وقانونی لحاظ سے اس کے اہل ہوں گے۔
مگر سابقہ کابل انتظامیہ کے شریر و مفسد افراد نے اس قانون پر اعتراض کیا کہ کیوں ایسا قانون نافذ کیاگیا ہے، ان کا مقصد واضح ہے، یہ لوگ نہیں چاہتے کہ افغان دینی معاشرے میں ایک بار پھر سے اسلامی احکامات نافذ ہوں۔
اسلام اور اس کے احکامات سے یہ لوگ اس لیے خوف کھاتے ہیں کہ اس میں ان کی خودسری اور آزاد مزاجی نہیں چلتی، لہذا ان کی کوشش ہے کہ اسلامی احکام کو جتنا بھی ختم کیا جاسکے، اس میں ان کی ہی بھلائی ہے کیونکہ یہ لوگ مادیت پرستی و بے دینی میں بہت آگے جا کے ہیں، ان میں جو شخص جتنا بڑا خائن، غلام اور غیروں کا ایجنٹ ہوگا وہی ان کی نزدیک حکومت کا زیادہ اہل ہوگا۔
لہذا یہ لوگ صرف اسی قانون کے خلاف نہیں بلکہ ہر اس اقدام کی مخالفت کریں گے جو اسلام اور دینی شعائر کی تقویت وترویج کا باعث ہو، یہ لوگ چاہتے ہیں کہ علماء کو حکمرانی سے دور کردیں تاکہ معاشرے سے دینی احکامات کا خاتمہ ہوجائے کیونکہ جب علماء ہی نہ رہیں تو بہت کم وقت میں معاشرے میں اقدار و ترجیحات تبدیل ہو جائیں گی۔
ہمارا معاشرہ ایک دینی معاشرہ ہے، یہاں ہر فرد کی خواہش ہے کہ یہاں شریعت مکمل طور پر نافذ ہو، جو شخص بھی اس کے مقابل آئے گا، اسے حکومت کی جانب سے قرار واقعی سزا دی جائے گی۔