گزشتہ دنوں تحریک طالبان پاکستان کے مجاہدین نے خیبر پختونخوا کے علاقے ڈیرہ اسماعیل خان سے پاکستانی فوج کے ایک کرنل خالد، ڈپٹی کمشنر آصف اور نادرا کے ایک افسر فہد میر کو اغوا کیا۔
ان تین اعلیٰ افسران کے اغوا نے پاکستانی فوج کے "محفوظ پاکستان” کے دعووں کی قلعی کھول دی ہے اور پاکستانی فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیت پر بڑے سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک فوج پروفیشنل ازم کا دعوی کرتی ہو اور تمام خطرات سے آگاہ بھی ہو اور وہ اپنے افسران کی حفاظت میں ناکام ہو جائے؟
پاکستانی فوج اور حکومت ملک کے اندر پیش آنے والے تمام واقعات کا الزام افغانستان پر عائد کرتی ہے، لیکن اپنے افسران کے اغوا کے بعد وہ اس بات کا کیا جواب دیں گے کہ دن دہاڑے ان کے افسران کو ان کے اپنے علاقوں اور گلیوں سے کیسے اغوا کر لیا گیا؟ اس سے تو واضح ہوتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) وہیں ملک کے اندر موجود ہے اور اس نے وہیں اپنے مراکز بھی قائم کر رکھے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق، پاکستانی فوج نے قبائلی عمائدین کے ایک جرگہ کے ذریعے اپنے افسران کی رہائی کے لیے تحریک طالبان پاکستان سے رابطہ کیا ہے۔ جرگے کے عمائدین نے ڈیرہ اسماعیل خان میں طالبان کے ایک کمانڈر سے اس کے مرکز میں ملاقات کی اور افسران کی رہائی کے حوالے سے گفت و شنید کی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قبائلی عمائدین کو علاقے میں طالبان کے مراکز کا علم ہے اور وہ ان سے جرگے بھی کرتے ہیں، حتیٰ کہ پاکستانی فوج اپنے افسران کی رہائی کے لیے جرگہ انہیں مراکز میں بھیجتی ہے مگر پھر بھی پاکستانی فوج اور اداروں کو ان مراکز کے مقامات کا علم نہیں؟ اور نہ ہی وہ خود ان علاقوں میں جانے کی ہمت کر پا رہے ہیں تاکہ اپنے افسران کو بچا سکیں، اس لیے وہ قبائلی جرگے پر انحصار کر رہے ہیں تاکہ اس مسئلے کو حل کیا جا سکے۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ پاکستانی اداروں کو اپنے ملک کے اندر تحریک طالبان پاکستان کے مراکز نظر نہیں آتے، لیکن سینکڑوں کلومیٹر دور افغانستان میں انہیں تحریک طالبان پاکستان کے خیالی مراکز اور افراد نظر آ جاتے ہیں اور وہ وہاں سے ان کی گنتی کرکے تعداد بھی معلوم کر سکتے ہیں۔ پاکستانی فوج اور حکام کو الزام تراشی کی بجائے اپنی کارکردگی پر دھیان دینا چاہیے تاکہ ان کے ملک میں امن قائم ہو سکے۔ آپ کسی اور کو موردِ الزام ٹھہرا کر شاید اپنے عوام کو عارضی طور پر دھوکہ دے سکتے ہیں، لیکن اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہو گی۔