کافی عرصہ سے ٹی ٹی پی کی موجودگی کے حوالے سے ریاستِ پاکستان نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر یہ بات بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ ٹی ٹی پی کے کارکنان ریاستِ پاکستان کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور کاروائی کر کے واپس افغانستان چلے جاتے ہیں۔ جبکہ اس الزام کا جواب امارت اسلامیہ افغانستان کی جانب سے دیا جاتا رہا ہے کہ ٹی ٹی پی کا مسئلہ پاکستان کا داخلی مسئلہ ہے اور افغانستان کی سرزمین کسی بھی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں کی جاتی، البتہ بعض وہ مہاجرین جو پاکستان کے بے تحاشہ مظالم سے تنگ آ کر ۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۲ء کے دوران پناہ گزینوں کے طور پر اُس وقت افغانستان آئے تھے کہ جب امریکہ اوراسکی اتحادی افواج بھی افغانستان میں موجود تھیں، اور خوست کیمپ وغیرہ جیسے مقامات پر اِس وقت جو پاکستانی مہاجرین موجود ہیں ان کے پاس نہ تو اسلحہ ہے اور نہ ہی ٹی ٹی پی کے ساتھ ان کا کوئی واسطہ ہے، ان کی زندگی مہاجرین کےعالمی قوانین کے مطابق ایسے بسر ہوتی ہے جس طرح کہ پاکستان، ترکی وغیرہ میں مہاجرین زندگی گزارتے ہیں ۔
ایسے سرکاری الزامات کی حقیقت اور ان کے جوابات جاننے کے لئے یہاں حقائق پر مبنی چند سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جو ان شاء اللہ سوشل میڈیا کے اندھے اور بے لگام انفلوئنسرز اور صحافت کے اونچے میناروں سے سرکاری فرمائشوں پر بلند و بانگ دعوے کرنے والے صحافیوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کارآمد ثابت ہوں گے۔
ان ارید الا الاصلاح ماستطعت وما توفیقی الا باللہ
پہلا سوال:
پاکستان کا دعوی ہے کہ ہم نے ستائیس سو ( ۲۷۰۰) کلومیڑ بارڈر (ڈیورنڈ کی فرضی لائن) پر بارہ فٹ بلند اور پانچ فٹ چوڑی مظبوط باڑ لگائی ہے، اور صرف باڑ ہی نہیں بلکہ باڑ کے بیچ میں خار دار تاریں اس انداز سے بچھائی گئی ہیں کہ انسان کیا اگر چھوٹے چھوٹے جانور بھی اُس میں داخل ہونا چاہیں تو بھی داخل نہیں ہوسکتے، نیز ہر دو سو تین سو میٹرکے فاصلے پرایک مظبوظ پوسٹ قائم کی گئی ہے، ہر پوسٹ کا دوسری پوسٹ کے ساتھ وائرلیس رابطے کے علاوہ پیٹرولنگ رابطہ بھی قائم رہتا ہے، کیونکہ پوری فرضی ڈیورنڈ لائن پر سڑکوں کا جال بھی بچھایا گیا ہے، اور ہر دس پندرہ پوسٹوں کے عقب میں ایک بڑا فوجی کیمپ بھی بنایا گیا ہے جہاں تازہ دم فوجی دستوں سمیت خوارکی اشیاء اورتمام طبی ضروریات مہیاء ہوتی ہیں، اور ہر پوسٹ میں پانچ چھ مسلح فوجی بٹھائے گئے ہیں، جن کے پاس جی تھری اور سنائپر سے لے کر ایل ایم جی تک کا اسلحہ ہوتا ہے، نیز ہر پوسٹ پرستّر اَسّی لاکھ روپیہ والے ایسے تھرمل کیمرے نصب ہوتے ہیں کہ اگر رات کے گھپ اندھیرے میں پانچ سو میٹرکے فاصلے پر کوئی پرندہ پَر بھی مارے تو وہ بھی ان کی نگرانی میں ہو۔ ہر بیس تیس میٹر پر رات کے وقت جدید آٹومیٹک لائٹس کی صورت میں سنسر کا نظام نصب کیا گیا ہے کہ جاندار چیز کے قریب آنے سے اس کی روشنی مزید بڑھ جاتی ہے، ان جدید لائٹس سسٹم کی وجہ سے رات کے وقت فرضی ڈیورنڈ لائن کے علاقے کا نظارہ قابل دید ہوتا ہے، اور اس پر مستزاد یہ کہ زمین پر برقی تاروں اور سنسرز کا ایسا سسٹم نصب کیا گیا ہے کہ اگر کوئی جاندار باڑ کے قریب آئے تو وہ پوسٹ والوں کو سائرن کی صورت میں اطلاع کر دیتا ہے، اسی طرح پاکستانی وزارت دفاع کے معتبر ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ فرضی ڈیورنڈ لائن کی حفاظت کی خاطر ریاستِ پاکستان نے آٹھ سو چھوٹے بڑے ڈرون طیارے مختص کیے ہیں، جن میں میزائل فائر کرنے صلاحیت کے ساتھ جاسوسی کے ہر قسم آلات بھی نصب ہوتے ہیں۔ ان تمام انتظامات کے ساتھ ساتھ فرضی ڈیورنڈ لائن سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر کمین گاہوں میں جدید ٹیکنالوجی سے لیس اسپشل فورس کے قطعات موجود ہوتے ہیں کہ اگر پھر بھی کوئی دھشت گرد ان تمام حصاروں کو توڑ کر داخل ہو جائے تو ان سے کمین گاہوں میں اسپیشل فورس کے ذریعہ نمٹا جائے، اِن انتظامات کے بعد پاکستان نے امریکہ کو اطمینان دلایا کہ فرضی ڈیورنڈ لائن کے لئے مختص آپ کے دیے ہوئے ہزاروں ملین ڈالرز صرف کرنے کے بعد ہم تمہیں پورا یقین دلاتے ہیں کہ فرضی ڈیورنڈ لائن پر اب پرندہ بھی ہماری نظر میں آئے بغیر پر نہیں مارسکتا۔
یادرہے! مذکورہ بالا انتظامات کوئی خیالی نہیں بلکہ ایک دیدہ و دانستہ حقیقت ہے، جس پر پاکستانی ادارے یقیناً قابلِ داد ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ان جیسے انتظامات نہ تو روس جیسے ترقی یافتہ ملک نے یوکرین کی منظم فوج کے خلاف کئے جن کو امریکہ سمیت پوری یورپ کی حمایت حاصل ہے اور ہر قسم کے جدید اسلحے اور آلات سے لیس ہیں، اور نہ ہی اسرائیل جیسے امریکہ و برطانیہ نواز بدمعاشوں نے حماس جیسے صاحب عزم و کرامت مجاہدین کے خلاف ایسے اقدامات اٹھائے ہیں۔
اب پہلا سوال یہ ہے کہ ایسے انتظامات کے باوجود ٹی ٹی پی کے مجاہدین کیسے سرزمینِ پاکستان میں قدم رکھ سکتے ہیں اور چترال، سوات، پشاور تا ڈیرہ جات اور بلوچستان تک وہ پاکستانی سکیورٹی اداروں پر کامیاب کاروائیاں کرتے ہیں۔ یہ فلسفہ کم ازکم میری ناقص سمجھ سے بالاتر ہے، بالفرض اگرپاکستان کے اس دعوی کو ایک منٹ کے لئے تسلیم بھی کر لیا جائے کہ واقعی ٹی ٹی پی افغانستان کی سرزمین استعمال کرتی ہے، جبکہ ہماری معلومات کے مطابق امارت اسلامیہ افغانستان نے پاکستان کے انتظامات کے مقابلہ میں فرضی ڈیورنڈ لائن پر پانچ فیصد کام بھی نہیں کیا، تو ایسی صورتحال میں ٹی ٹی پی کے کارکنان کی دراندازی کا سارا ملبہ امارت اسلامیہ پرڈالنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایک طرف ریاستِ پاکستان مذکورہ بالا انتظامات پرقابلِ داد ہیں تو ٹی ٹی پی کے کارکنان اگر ان انتظامات کے باوجود فرضی ڈیورنڈ لائن کراس کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تووہ ہزار بار داد کے مستحق ہیں، اور دیکھنے والوں کے ہاں یہی ان کے برحق ہونے کی واضح دلیل ہے کہ صحابہ کو سمندروں نے راستے دیے تھے اور ٹی ٹی پی کے مجاہدین کو پہاڑوں میں ایسے انتظامات کے باوجود راستے مل رہے ہیں، جو سمندری راستوں سے کئی گنا مشکل ہیں۔ کیا ان جیسے انتظامات کے باوجود ریاستِ پاکستان کا امارتِ اسلامیہ افغانستان پر الزامات لگانا کھلی حماقت اور ٹی ٹی پی کے مقابلہ میں اپنی شکست کے اعتراف کے مترادف نہیں؟
دوسرا سوال:
پاکستان کے معتبر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ریاستی اداروں نے اکتوبر کے آخری عشرے میں باجوڑ اور دیر کے بارڈر ’’درگئی‘‘ میں مالاکنڈ ڈویژن میں ٹی ٹی پی کے معاون والی محترم قریشی استاد، ان کے بیٹے اور داماد سمیت نو کمانڈروں کو قتل کر دیا ہے، جس کی تصدیق ٹی ٹی پی کے مصدقہ ذرائع نے بھی کی اور والی مالاکنڈ ڈویژن محترم مولانا عظمت اللہ لالا نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ مجاہدین باجوڑ کے مراکز سے سڑک کے ذریعے سوات کے مراکز جا رہے تھے، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ سوات، دیر، اور باجوڑ میں بڑے پیمانے پر ٹی ٹی پی کے مزاکز موجود ہیں۔ اور روزانہ کے لحاظ سے ان علاقوں میں سیکیورٹی اداروں پر کاروائیاں کرنا اس دعوے کو مزید تقویت بخشتا ہے، اب ان مراکز اور کاروائیوں کا الزام امارت اسلامیہ پرلگانا سمجھ سے بالاتر ہے۔
تیسرا سوال:
ٹی ٹی پی کے لوائح اور تنظیمی ڈھانچہ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے پاکستان کو دو حصوں (جنوبی اورشمالی زونز میں تقسیم کیا ہے)۔ جنوبی زون جس میں کوہاٹ ڈویژن تا بنوں، ڈی آئی خان، پورا بلوچستان، سندھ اورجنوبی پنجاب کے ڈویژنز شامل ہیں، جبکہ شمالی زون میں مالاکنڈ ڈویژن، پشاور، مردان، ہزارہ اور شمالی پنجاب کے ڈویژنز شامل ہیں، اورہر ڈویژن کو انہوں نے ولایت کا درجہ دیا ہے، اور ہر تحصیل کو ولسوالی کا درجہ دیا ہے۔ اس تقسیم کے بیان کا مقصد یہی ہے کہ تقریباً پندرہ سولہ والیان اوردسیوں ولسوالان صاحبان پر ٹی ٹی پی کی طرف سے یہ لازم کر دیا گیا ہے کہ وہ جنگ کے محاذوں میں رہیں گے، جس کی واضح دلیل، رھبری شوریٰ کے رکن محترم مفتی مزاحم صاحب جوتحریک کے سابقہ نائب اور وزیرِ دفاع رہ چکے ہیں، اور اس وقت جنوبی زون کے نظامی مسؤل بھی ہیں، انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں واضح طور پر کہا ہے کہ میں نے جنوبی زون کے مختلف محاذوں کا دورہ کیا، جہاں بارڈراورمرکزی مقامات کے علاوہ ہر جگہ طالبان کے مراکز موجود ہیں۔ طالبان کھلے عام بازاروں، حجروں اور مساجد میں گھومتے پھرتے ہیں، اور عوام اپنے فیصلے کچہریوں کے بجائے مقامی طالبان کے قاضیوں کے ذیعے حل کرواتے ہیں۔ اسی طرح رہبری شوری کے کئی دیگر ارکان مراکز کے بجائے محاذِ جنگ میں موجود ہیں، مثلاً مولانا طہ سواتی جو رہبری شوریٰ کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ احتساب کمیشن کے رکن کی حیثیت سے محاذوں کی نگرانی میں مصروف ہیں، رہبری شوریٰ کے ایک اور رکن محترم کمانڈر بلال فاروقی صاحب جو زون کے انٹیلی جنس چیف اور اقتصادی وزیر بھی رہ چکے ہیں، محاذوں پر مجاہدین کی دیکھ بال میں مصروف ہیں۔ کیا اس حقیقت کا ریاستِ پاکستان کوعلم نہیں؟ یا ریاستِ پاکستان جان بوجھ کر امارت اسلامیہ افغانستان پرالزام تراشیاں عبادت سمجھ کر کرتی ہے؟
چوتھا سوال:
مولانا فضل الرحمن صاحب اور دیگر سیاسی شخصیات اس اندیشے کا اظہار مسلسل کرتے رہے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کے مجاہدین اس قدر کثرت سے قبائلی اضلاع میں موجود ہیں کہ رات کے وقت بازاروں اور چوکوں چوراہوں پرطالبان کی حکومت ہوتی ہے اورحکومت کی رٹ نامی کوئی چیز باقی نہیں۔ بلکہ حالیہ دنوں میں ٹی ٹی پی کے کارکنان مختلف ولایات مثلا، خیبرایجنسی، باڑہ، متنو، اسی طرح کرم اور اورکزئی ایجنسی کے چوکوں چوراہوں اور شارع عام پرکھلے عام گھومتے پھرتے نظرآتے ہیں۔ خاص طور پر ولایت بنوں اور ڈی آئی خان کا زیادہ تر حصہ تو طالبان ہی کے قبضے میں ہے۔ ۲۶ اکتوبر کی بات ہے کہ کمشنرڈی آئی خان اوردیگر ریاستی اداروں نے خبردار کیا کہ سرکاری افراد ڈی آئی خان اور ٹانک کے عمومی راستے کو استعمال کرنے میں احتیاط کریں۔ رات کے وقت نقل و حرکت نہ کریں۔ یہ سب باتیں اس کی واضح دلیل نہیں کہ ٹی ٹی پی اس وقت سرزمینِ پاکستان ہی پر موجود ہے، اور ریاستی اداروں کی جانب سے الزام کن پرعائد کیا جاتا ہے؟
پانچواں سوال:
ریاستِ پاکستان کے کئی اعلیٰ ذمے داران نے بارہا عمران خان اور جنرل باجوہ پر یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ فیض حمید کی وساطت اور امارت اسلامیہ کی ثالثی میں ایک سال تک جو مذاکرات ہو رہے تھے، اس دوران تیس سے چالیس ہزارکے لگ بھگ طالبان مالاکنڈ ڈویژن اور قبائلی اضلاع میں داخل ہوئے تھے، اگر اس بیان میں صداقت ہے تو پھر امارت اسلامیہ افغانستان کے بجائے مذکورہ افراد کا محاسبہ ہونا چاہئے۔ یہاں انصاف کا دامن کیوں چھوڑا جا رہا ہے؟
چھٹا سوال:
ماضی قریب کی بات ہے کہ خیبر ایجنسی کے علاقے تیراہ اور جنوبی اورشمالی وزیرستان میں کئی ڈرون حملے ہوئے، جن میں کئی عام شہری شھید اور زخمی ہوئے، میرعلی بازار پر فاسفورس بموں کا بے دریغ استعمال کیا گیا، اور بہانہ یہ تراشہ گیا کہ یہاں دھشت گرد موجود تھے، اسی طرح لکی مروت، میانوالی، گنڈاپور، ٹانک، بنوں، صدہ، ایف آر پشاور، پشاور، مردان، دیر اور شانگلہ میں مجاہدین آزادانہ گھومتے پھرتے ہیں، یہ مجاہدین بھی اس قدر کثیر تعداد میں افغانستان سے داخل ہوئے اور سینکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ آرام سے طے کر کے حساس علاقوں میں داخل ہوئے، اور نمبر ون انٹلی جنس اداروں کو کوئی خبر نہ ہوئی؟ کیا تحریکِ طالبان پاکستان کے مجاہدین جنات ہیں کہ ان اداروں کو کوئی خبر نہیں ہوتی؟
اصل بات یہ ہے کہ ریاستی ادارے بے تحاشہ مظالم ڈھانے والے اورعوام کی جان ومال کے محافظ ہونے کے بجائے ان کی جان، مال اورعزت کے لٹیرے بن چکے ہیں اور قوم کی معدنیات اور زخائر پر قابض ہونے کے باعث فوج اپنی ساکھ کھو چکی ہے اور ہر گھرانے کے چند افراد اس عزم کے ساتھ ٹی ٹی پی کی صفوں میں شامل ہوچکے ہیں کہ یہ لٹیرے اب ڈنڈے کے بغیر کسی اور زبان کو سمجھنے والے نہیں، اس وجہ سے ٹی ٹی پی کی صفوں میں آئے دن ترقی ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ جو ان کی کامیابی اور منزل تک رسائی میں ممد اور معاون ثابت ہوگی۔
مزید سوالات بھی اٹھائے جا سکتے ہیں، مگر کیا کیا جائے، جو حق کے متلاشی ہوتے ہیں ان کی تسلی کے لئے ایک یقینی دلیل بھی کافی ہوجاتی ہے، مگر ضدی اور ناسمجھ کا کوئی علاج نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس خطے کو امن کا گہوارہ بنا دے، اور اس خطے کو اسلامی بہاروں سے مزین فرمادے۔ آمین یارب العالمین۔
وصلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ محمد واٰلہ وصحبہ اجمیعین ۔