دنیا میں تمام اشیاء کی تعریف اور ان کا مفہوم ذکر کیا جاتا ہے۔ شرعی،لغوی اور عرفی الفاظ و اصطلاحات کی تعریفات واضح ہیں، جب بھی کوئی لفظ یا جملہ بولا جاتا ہے اس کا اپنا خاص معنی ومفہوم ہوتا ہے البتہ اس کے کہنے والوں کے افکار میں فرق پایا جاتا ہے۔
مثال کے طور پرقبضہ یا استعمار ایسا لفظ ہے کہ تمام ڈکشنریز اور لغت کی کتب میں دیکھا جائے تو اس کا معنی یہی لکھا ہے کہ کسی ملک پر طبعی و جغرافیائی طور پر ایسا قبضہ وکنٹرول کرنا کہ اس ملک کی عوام اس کا قانون ودستور اور اس کے رسم ورواج کو اپنی گرفت میں لے لینا۔
لہذا اس تعریف کی روشنی میں دیکھا جائے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمان موجودہ افغانستان آئے، یہاں کے اصل باشندوں، بدھ مت کے پیروکاروں کی زمین پر قبضہ کیا، اپنے قانون، قرآن وحدیث، کو لوگوں پر نافذ کیا اور آج تک یہاں کے باشندے مسلمان ہیں، یہ اسلامی ملک ہے، یہاں کا رسم ورواج، قانون ودستور اسلامی ہے تو کیا یہ بھی قبضے اور استعمار کے مفہوم میں داخل ہے؟
نہیں! کبھی نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان باوجود یہ کہ تلوار کے بل بوتے پر یہاں آئے لیکن وہ اپنے ذاتی مفادات کے بجائے اللہ تعالیٰ کی مقدس کتاب قرآن مجید اور اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و ارشادات یہاں لائے، یہاں کے لوگوں کو گمراہی سے ہدایت، اندھیروں سے روشنی اور کفر سے اسلام میں داخل کرنے آئے جو کہ ہمارے لیے روز قیامت تک باعث سعادت وافتخار رہے گا۔ ہم اسے قبضہ اس لیے نہیں کہتے کیونکہ یہ دین (اسلام) حق و سچ تھا، اس کے برعکس یہاں پر انگریزوں، روسیوں اور امریکیوں نے جو حملے کیے، انہیں ہم استعمار اور ظلم سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ ان کے قانون و دستور، رسم و رواج، ان کے نظام حکومت کل بھی حق کے بجائے ظلم و سرکشی پر مبنی تھے اور آج تو وہ اپنی گمراہی میں مزید آگے جاچکے ہیں، اسی لیے ہم نے ان کی اطاعت نہ کی اور ان کے خلاف علم جہاد بلند کیا۔
جمہوریت کے دلدادہ اور ان کے حمایتی افغانستان پر امریکی حملے وقبضے کو اس لیے جائز و صحیح مانتے ہیں کہ ان کے نزدیک جمہوریت دینِ حق ہے جو انسانیت کی نجات اور ترقی کا ضامن ہے، ان کا عقیدہ ہے کہ امریکہ کو یہ حق حاصل تھا کہ یہاں دینِ جمہوریت نافذ کرے کیونکہ یہ انسانی حقوق کا پاسبان دین ہے۔
جیسا کہ ہم بحیثیت مسلمان اسلام اور اس کے احکامات کی تبلیغ و ترویج کو اپنے اوپر لازم سمجھتے ہیں بالکل اسی طرح جمہوریت پسند اپنے اس دینِ جدید کو دوسروں تک پہنچانے اور ان سے منوانے کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ جمہوری نظام کو ظلم کے بجائے اصلاح و ترقی کا ضامن اور دوسرے ادیان سے اس کے تقابل پر فخر محسوس کرتے ہیں۔