اللہ تعالیٰ ہر دور میں اپنے دین کی حفاظت کے لیے ایسے رجال پیدا کرتا ہے جو عظمت، عظیمت، عزم، سرشاری و بہادری کی مثال ہوا کرتے ہیں۔ کوئی بھی رنج و الم ان کے پاکیزہ منہج میں رکاوٹ نہیں بن پاتا۔ ان کا مضبوط عزم دشمن کو لرزہ بر اندام کر دیتا ہے اور وہ کامیابی کی سرحدوں کی جانب تیزی سے پیش قدمی کر رہے ہوتے ہیں۔
تاہم، یہ واضح ہے کہ جوانی، بہار اور گلاب کی عمر یں بہت مختصر ہوا کرتی ہیں، خزاں کی خشک ہوائیں جلد ان پر آن پہنچتی ہیں، ان کی دلکش مسکراہٹ پلک جھپکتے ہی ماند پڑ جاتی ہے، گلابی لب چِر جاتے ہیں، سیاہ آنکھیں اشکوں سے بھر جاتی ہیں اور ان اشکوں سے گریبانوں کے ویران دشت پھر سے سیراب ہو جاتے ہیں۔
فلسطین، القدس، اقصیٰ اور غزہ وہ نام ہیں جن کو سنتے ہیں خوشی چھِن جاتی ہے، بچوں کی سسکیاں، ماؤں کی پکار، نوجان لڑکیوں کی بے حرمتی، جوانوں کا قتلِ عام، اور بزرگوں کی توہین آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔ لیکن! اگر ایک طرف جہاں یہودی، اسرائیل اور صہیونی نظام یہ ظلم، بربریت اور وحشیانہ کارروائیاں کر رہے ہیں تو دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے اسی فلسطین اور غزہ کی حفاظت کے لیے ایسے رجال پیدا کیے کہ جن کے نام اور آواز سے ہی صہیونی نظام اور اس کے حواری سکھ کا سانس نہیں لے پاتے اور ہمیشہ خوف کے احساس میں مبتلا رہتے ہیں۔
اسلامی مزاحمت یا حماس کا سیاسی دفتر القدس کی حمایت میں کئی دہائیوں سے صہیونی نظام اور اس کے حواریوں کے سامنے ایک ڈھال کی طرح کھڑا ہے، عظیم قربانیاں پیش کر چکا ہے اور القدس کے ہر ہر بچے کی سسکیوں کا بدلہ لیا ہے، مظلوم اقصیٰ کے محافظ اور یہ رنجیدہ مسلمان امت کی بڑی اور آخری امید ہے۔
حماس کے دعوے کی صداقت کا ایک ثبوت یہ ہے کہ کہ ایک ایک کر کے اس کے رہنما جامِ شہادت نوش کر رہے ہیں۔
ہاں! القدس نے شہید شیخ احمد یاسین تقبله اللہ کی یاد کو ابھی تک فراموش نہیں کیا تھا، ابھی تک شیخ عبد العزیز رنتیسی تقبلہ اللہ کی شہادت کا غم ماند نہیں پڑا تھا کہ ایک اور آہ اسے سنائی دی، امت مسلمہ پر سوگ کی ایک اور کالی گھٹا چھا گئی، پہاڑوں پر صبح کی روشنی بنا سورج کے پڑی، عظمتوں و عظیمتوں کے قائد، صبر اور استقامت کا عظیم پہاڑ، شہداء کے ایک عظیم خاندان کوا واحد شاہکار اور رنجیدہ القدس کا صلاح الدین ثانی بھی شہادت کی نیند سو گیا۔
اسماعیل ہنیہ تقبله اللہ کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر حوصلہ عطا کیا تھا کہ اپنے بچوں کی شہادت پر خوش ہو جاتے اور ان قربانیوں کو جهاد کی تقویت کا باعث سمجھتے۔ صرف گزشتہ برس ہی انہوں نے اپنے خاندان کے ۲۲ افراد کی قربانی پیش کی، مسلمانوں، رنجیدہ اور شکستہ القدس، صلاح الدین ایوبی کے فلسطین اور اقصیٰ کا واحد غم خوار، امت مسلمہ کی امیدوں کی ایک اور چراغ جس کی روشنی کو بادِ خزاں نے ماند کر ڈالا۔