۲۰۱۵ء امارت اسلامی افغانستان کے لیے مشکلات کا سال ثابت ہوا، اس سال امیرالمؤمنین، ملا محمد عمر مجاہد رحمه الله کی وفات کی خبریں عام ہو گئیں تھیں، افغانستان میں موجود کفری قوتیں اور ان کے ایجنٹ اس امید میں تھے کہ امارت اسلامی کے مجاہدین آپس میں اختلافات میں مبتلا ہوجائیں گے، میدان ان کے ہاتھ آئے گا، اور طالبان کی جدوجہد کا خاتمہ ہو جائے گا۔
لیکن امارت اسلامی کی قیادت، جس کی رہبری شہید امیرالمؤمنین ملا اختر محمد منصور رحمہ اللہ کے ہاتھ میں تھی، اللہ تعالیٰ کی مدد سے اس قابل ہوئی کہ تمام مجاہدین کو اپنے گرد اکٹھا کرکے، دشمنوں کے ناپاک عزائم کو ناکام کردیا۔
انہی مشکل دنوں میں، جب افغانستان کے امارت اسلامی نے صلیبی اتحاد کے خلاف اپنے مقدس جہاد کو مضبوط کرنے کے لیے منصوبے تیار کیے اور اپنے آپ کو مزید منظم کیا، ملک کے مشرقی حصے میں علم بغاوت اور اختلافات شروع ہوگئے، خلافت کے قیام کے نئے دعویداروں نے علم بغاوت بلند کرتے ہی ان تمام لوگوں پر کفر اورارتداد کے فتوے لگانےشروع کردیے، جن سے انہوں نے جہاد اور قتال کے مفاہیم سیکھے تھے، ان کی بغاوت پران کے رہنماؤں نے تعریفوں کے قصیدے پڑھے جبکہ عالمی جہاد کے مؤسسین ان کی بیعت سے پیچھے رہ گئے۔
شہید امیرالمؤمنین نے نام نہاد "عالمی اسلامی خلافت” کے دعویدار ابو بکر بغدادی کو عزت و احترام کے ساتھ ایک خط بھیجا، جس میں انہوں نے اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ دیتے ہوئے اوراپنے ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہاں مسلمانوں اور مجاہدین کے درمیان تفرقے اور اختلافات کے شعلے نہ بھڑکاؤ، لیکن اس خط کا جواب ابو محمد العدنانی (جو بھونکنے والے کتے کےنام سے مشہور تھا) نے عراق اور شام کے گرم ونرم بستر سے بہت ہی تلخ اور گالیوں سے دیا، یہ وہی عدنانی تھا جس نے ایک وقت میں طالبان اور امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد کی تعریف میں قصیدے پڑھے تھے، لیکن جب اس کے ہاتھ میں کچھ اقتدار آیاتو اپنے سوا ہر شخص بلکہ پوری دنیاکے مسلمانوں کو کافر قراردے دیا۔
افغانستان کے مشرق میں پھیلنے والی کینسرکی رسولی، اپنی جڑیں پھیلاتے پھیلاتے شمالی افغانستان تک پھیل گئی، وہاں بھی اس فتنے میں شامل مشرقی علاقوں کی طرح مجاہدین کی صفوں سے نکالے گئے بندوق بردار مفسدین، منافقین، یا بے ریش لڑکے تھے۔ ۲۰۱۶، ۲۰۱۷ اور ۲۰۱۸ وہ سال تھے جب افغانستان میں ان کی دہشت اور وحشت اپنے عروج پر پہنچ گئی، سپین غر کے پہاڑوں سے، امریکی ڈالرز کے ذریعے چلنے والے ریڈیو کی لہروں پر جھوٹی باتیں پھیلائی جا رہی تھیں اورتکبرسے بھرے ہوئےلہجے میں وہ لوگوں کو اپنے ساتھ لڑائی میں شامل ہونے کی دعوت دیتے تھے، جب مجاہدین کے خلاف جنگ سے فارغ ہوتے تو یہ فتنہ گر لوگوں کو بموں پر بٹھاکرقتل کرنے کی ایچ ڈی ویڈیوز بناکرقیام خلافت کے لیے جہاد کے نام پربازاروں میں پھیلاتے۔
وقت گذرتاگیا بالآخر مجاہدین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور ۲۰۱۹ء کے آخر تک داعشیوں کے پاس ملک میں ایسی کوئی جگہ نہیں بچی جسے اپنے کنٹرول میں ہونے کا دعوی کرکے خام فکرنوجوانوں کو دھوکہ دے سکیں، اس گروہ کے بیشتربندوق برداریا تو نیشنل سکیورٹی اداروں کے ہیلی کاپٹروں میں جنگ کے علاقوں سے نکالے گئے یا پھر انہوں نے خود امریکہ اور اس کے ایجنٹوں کے بیسز میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے، اس طرح ان کی بنیاد ختم کردی گئی۔
ملک کے مشرقی حصے میں اپنے وحشت بھرے علاقوں کو کھو دینے کے بعد، وہ ۲۰۲۱ء کی ماہ اگست تک خاموش رہے۔ امریکی قبضے کے خلاف مقدس جہاد کی کامیابی کے ساتھ ہی انہوں نے دوبارہ سر اٹھایا، انہیں اس بات کا گمان تھا کہ وہ دوبارہ اٹھ کر قوت حاصل کریں گے، مگر وہ اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ خراسان اللہ کا تیرکش ہے اور جب اللہ تعالی کے دشمن تکبر کی حد کو پار کرتے ہیں اور اللہ کے عذاب کے مستحق بنتے ہیں، تو یہی سرزمین ان کے لیے قبرستان بن جاتی ہے۔
بہت کم وقت میں خراسان میں ان کے دوبارہ اٹھایاگیا فتنہ پھر سے ختم کردیاگیا، ان کے رہنما پڑوسی ممالک میں فرار ہو گئے اور وہاں سے انہوں نے اپنے بندوق برداروں کو بلوں کے ذریعے واپس داخل ہونے کے احکام دیے۔
اس کے ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی ایک بار پھر سچ ثابت ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
’’کلما خرج قرنٌ قُطعَ، حتی یخرجَ فی عرضِهم الدجالُ‘‘۔[ابن ماجہ: 174]
ترجمہ: ’’جب بھی ان(خوارج) میں سے کوئی سر(گروہ) اٹھے گا، اسے کاٹ دیاجائے گا، یہاں تک کہ ان کی بڑی فوجوں میں دجال ظاہر ہو گا‘
جو لوگ ان کے بے بنیاد دعوؤں سے فریب کھا کر خوارج کی صفوں میں شامل ہوتے ہیں، انہیں مهدی علیہ السلام کے ظہور کا نہیں بلکہ دجال کے خروج کا انتظار کرنا چاہیے۔
تکبر و غرور کی بے سینگ نیل گائے پر سوار خراسان کے خوارج، اب اتنے مجبور اور مفلس ہو چکے ہیں کہ قیام خلافت کے لیے انہوں نے صرف فیس بک اور ٹیلیگرام کو اپنے تسلط وکنٹرول کا ذریعہ منتخب کرلیا ہے، اور ہفتے کے پورے سات دنوں میں لوگوں سے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔