خوارج تاریخ اسلام میں ایک طویل اور شدت پسندی سے بھرا ہوا ماضی رکھتے ہیں، ان کے نظریے کا بنیادی اصول یہ تھا کہ اگر کوئی مسلمان گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔
خوارج کا آغاز اس وقت ہوا جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے قصاص لینے پر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اختلاف پیدا ہوا، جس کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان شہید ہو گئے۔
بعد میں حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے صلح کے لیے ایک کمیشن مقرر کیا، دونوں طرف سے اپنے اپنے نمائندے منتخب کیے گئے اور مکمل اختیار دینے کے بعد وعدہ کیا گیا کہ وہ منتخب کمیشن کے کسی بھی شرعی فیصلے کو مسترد نہیں کریں گے۔
اس واقعے کے بعد خوارج کا ظہورہوا، انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے نمائندوں کی تقرری کو اسلام کے خلاف قرار دیا اور ’’لا حکم الا اللہ‘‘کا نعرہ لگا کر حرقوص بن زہیر کی سرکردگی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اپنا راستہ الگ کرکے جدا ہوگئے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابتدائی طور پر انہیں یونہی چھوڑ دیا، لیکن جب انہیں خوارج کی منافقت، شدت پسندی اور مسلمانوں میں مختلف قسم کی بغاوتوں کو پھیلانے کا اندازہ ہوا تو انہوں نے ان کے خلاف جنگ کرنے کا فیصلہ کیا؛ بالآخر 38 ہجری قمری میں نہروان کے مقام پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک سخت جنگ کے نتیجے میں خوارج کے اکثر ارکان مارے گئے اور اس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسلامی معاشرے کو اس فتنے سے نجات دی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد وہ خوارج، جو نہروان کی جنگ میں زندہ بچ گئے تھے، وہ سب کے سب فرار ہوکر جزیرہ نما عرب اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں چھپ گئے تھے، یہ لوگ اُموی خلافت کے دوران عبدالملک بن مروان، ولید بن عبدالملک اور دیگر حکام کے خلاف دوبارہ منظر پر آ گئے۔
انہوں نے اپنے عادت کے مطابق عبدالملک بن مروان کے ساتھ دشمنی کا آغاز کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ خلافت کو نسلی نہیں ہونا چاہیے، اس لیے انہوں نے تمام اموی حکمرانوں کو مرتد قرار دے دیا؛ عبدالملک بن مروان نے خوارج کے خلاف سخت جنگیں لڑیں، یہاں تک کہ یہ بڑا فتنہ کچھ حد تک ختم ہوا اور خوارج کو منظر سے ہٹادیا گیا۔
اس کے بعد خوارج سلیمان عبدالملک، عمر بن عبدالعزیز اور دیگر خلفاء کے دور میں بھی موجود تھے، لیکن یہ زیادہ تر دور دراز علاقوں میں چھپے ہوئے تھے۔
عباسی خلافت میں بھی خراسان، عراق اور کچھ دوسرے علاقوں میں خوارج کا وجود تھا، مگر یہ بہت کم تھے اور مسلمانوں کے لیے کوئی خاص خطرہ نہیں بنے، اس کے علاوہ مسلمانوں کی بڑی بڑی سلطنتوں جیسے المرابطین، سلجوق، غزنوی اور دیگر کے خلاف بھی خوارج جیسے شدت پسند موجود تھے، جنہوں نے وقتا فوقتا مسلمانوں کی سلطنتوں کو کمزوری کرنے کی کوششیں کیں۔
عثماني خلافت کے دور میں خوارج موجود نہ تھے، مگر ان جیسے چھوٹے چھوٹے گروہ موجود تھے، جو شدت پسندی اور سخت گیر موقف پھیلانے کی کوشش کر رہی تھے، اس کے بعد خوارج ۲۰۱۳ء میں داعش کے نام سے عراق میں منظر پر آئے۔
ان خوارج نے بھی اپنے آباؤ اجداد کی طرح افراطیت، سخت گیری اور شدت پسندی اختیار کی اور عراق، شام، لیبیا اور افغانستان میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا، مگر الحمدللہ، امارت اسلامی کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں داعش کی بیخ و بُن اکھاڑ دی گئی اور مظلوم مسلمانوں کو ان کے شر سے محفوظ کرلیا گیا۔