داعش علماء کرام اور مراکز اسلامی کی راہ میں رکاوٹ

عبدالمالک رحیمی

یہ بات واضح ہے کہ دینی علماء انبیائے کرام کے وارثین اور معاشرے کے رہنماؤں کے طور پر ہمیشہ اسلامی اقدار کے تحفظ اور امت کے اتحاد کو مستحکم کرنے میں اہم اور کلیدی کردار ادا کرتے رہے ہیں؛ اسی لیے تاریخ کے مختلف ادوار میں مسلمانوں نے ہمیشہ سے انہیں قدر ومنزلت کی نظر سے دیکھا ہے۔

لیکن داعشی انتہا پسند جو اسلام کی ایک تحریف شدہ، پرتشدد اور غلط تصویر پیش کرتے ہیں، ان علماء کی تکفیر کرتے ہیں جو ان کے افراطی اور غیر اسلامی نظریات سے موافقت نہیں کرتے، داعشی ایسے علماء کو بزعم خویش دشمنان دین سمجھتے ہیں۔

یہ جاہل اور غافل لوگ نہ صرف علماء کے علمی اور روحانی مقام کا احترام نہیں کرتے، بلکہ طاقت اور تشدد کا استعمال کرتے ہوئے اپنے مخالفین، خاص طور پر مشہورعلماء کو قتل کرنے کی کوششیں بھی کرتے ہیں۔

داعش نے اسلامی دنیا کے متعدد مشہور علماء کو جو اسلام کی معتدل تشریح وتعبیر پیش کرتے تھے اور دین کا صحیح فہم رکھتے تھے، صرف اس وجہ سے انہیں کافر قراردیا کیا کہ وہ ان کے انتہاپسندانہ عقائد سے متفق نہیں تھے؛ ان علماء کو پہلے ’’درباری علماء‘‘ یا ’’مرتد علماء‘‘ کے الزامات لگائے گئےاور جب اس پروپیگنڈے کے نتیجے میں اپنے پیروکاروں کا نظریہ تبدیل کردیا تو پھران کے قتل کی فتوے بھی جاری کیے گئے۔

علماء اور دینی مراکز سے دشمنی داعش کی رگوں اور خون میں رچی بسی ہے؛ یہ گروہ ان دینی مدارس کی سخت مخالفت کرتا ہے جو اعتدال، وسطیت اور دین کی صحیح سمجھ پر مبنی علوم پڑھاتے ہیں اور اسی لیے انہوں نے کئی بار دینی طلبہ اور علماء کے خلاف دہشت گرد حملے کر کے ان علمی مراکز کو تباہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

افغانستان میں افراطی وانتہاپسند نظریات پر مبنی داعشی گروہ؛ دین کے معتدل پیغام اور شریعت کی صحیح فہم رکھنے والے علماء کو اپنے مقاصد کے لیے ایک خطرہ سمجھتا ہے اور اس گروہ نے مساجد، دینی اجتماعات اور علمی شخصیات پر حملے کر کے اپنے مخالفین کی آواز دبانے کی کوشش کی ہے۔

علماء اسلام کے ساتھ دشمنی اور نفرت یہ ظاہر کرتی ہے کہ داعش نہ صرف علماء سے بلکہ دین کے صحیح نفاذ سے بھی گہری دشمنی رکھتی ہے؛ یہ گروہ جو ظاہراً اسلامی ہے، درحقیقت خود کو اس بات کا مکلف سمجھتا ہے کہ امت کو جہالت کی طرف دھکیل کر اسلام اور مسلمانوں کے درمیان فاصلے پیدا کرے، تاکہ دینی عقائد کو کمزور کیا جا سکے اور مشہور علماء کو ختم کیا جا سکے۔

لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جو بھی گروہ دینی علماء کی بے عزتی کرے یا ان کے مقام کو نظر انداز کرے، وہ جلد ہی انحطاط اور زوال کا شکار ہو جائے گا، علماء اسلامی معاشرے کی رہنمائی اور آگاہی کے بنیادی ستون ہیں اور ان کی بے احترامی یا قتل معاشرے کو دینی اور اخلاقی رہنمائی سے محروم کر دے گا۔

تاریخ ہمیشہ غیرجانبدار گواہ کی طرح یہ حقیقت ثابت کرتی ہے کہ وہ تمام گروہ جو علماء کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں، نہ صرف اپنے دینی جواز کو کھو بیٹھے ہیں بلکہ انجام کارعوامی نفرت اوربربادی کا شکار ہوئے ہیں؛ داعش کا تکفیری گروہ بھی اس قاعدے سے مستثنیٰ نہیں ہے، جیسا کہ یہ اب زوال کی طرف بڑھ رہی ہے، ان شاء اللہ بہت جلد یہ مٹ بھی جائے گی۔

Author

Exit mobile version