علم دوستی، خاکساری اور علماء کی تعظیم:
نظام الملک کو علم سے بہت محبت تھی اور خاص طور پرعلمِ حدیث سے انہیں خاص لگاؤ تھا، وہ کہا کرتے تھے: میں حدیث کی روایات کو نقل کرنے کے لائق نہیں ہوں، لیکن میں چاہتا ہوں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حدیث لکھنے والوں میں شمار کیا جائے۔ وہ قیشری بن مسلم بن مهر بن داور ابو حامد الزہری سے حدیثیں سنتے تھے۔
نظام الملک کی خواہش تھی کہ جن مدارس کی تعمیر اس نے کی تھی، وہ اُمت مسلمہ کے امیدوں پر پورا اتریں۔ جب ابو حسن محمد بن علی واسطی، شافعی فقیہ نے اس کے پاس کچھ اشعار بھیجے، جن میں اس سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ صلیبیوں اور اشاعرة کے درمیان جو فتنہ پھیل چکا تھا، اس کا خاتمہ کرے، تو نظام الملک فوراً حرکت میں آیا اور ان فتنوں کا خاتمہ کیا۔ ان اشعار کا متن درج ذیل تھا:
یا نظام الملک قد حل بغداد النظام
وابنك القاطن فيها مستهان مستضام
وبها اودى قتلی غلام و غلام
والذي منهم تبقى سالما وفيه سهام
یا قوام الذين لم يبق ببغداد مقام
عظم الخطب و للحرب اتصال و دوام
فمتى لم تحسم والداء ايادي الحسام
ويكف القوم في بغداد قتل و انتقام
فعلى مدرسة فيها ومن فيها السلام
واعتصام بحريم لك من بعد حرام
اے نظام الملک! بغداد کا نظام کمزور اور سست ہو گیا ہے۔
آپ کا بیٹا جو اس شہر میں رہتا ہے، ذلیل اور بے عزت ہو رہا ہے۔
اس کی بیٹیاں یہاں زندہ دفن کی جا رہی ہیں اور قتل کی جا رہی ہیں۔
اور جو بچ جاتی ہیں، ان کے جسم تیروں سے چھلنی ہیں۔
اے دین کے محافظ! بغداد میں کچھ بھی نہیں بچا۔
حالات بہت خراب ہو گئے ہیں، جنگ کا بازار گرم ہے۔
تیز دھار تلوار کی مانند آپ کے ہاتھ اگر اس بیماری کا خاتمہ نہ کریں۔
تو بغداد میں قتل و غارت گری کا سلسلہ مزید بڑھ جائے گا۔
تو پھر مدرسوں اور ان میں موجود طلبہ کا خدا ہی حافظ ہے۔
عزت و وقار کا حصول اب تمہارے لیے حرام ہو جائے گا، (عنی دینداری کی کوئی قدر باقی نہیں رہے گی۔)
نظام الملک کی محفلیں علماء اور فقہاء سے آباد رہتی تھیں، نظام الملک سارا دن ان کے ساتھ گزارتا تھا۔ ایک بار اس سے کہا گیا کہ یہ لوگ آپ کو ضروری اور مفید کاموں سے غافل کرتے ہیں تو اس نے جواب دیا: یہ لوگ دنیا اور آخرت کی زینت ہیں، اگر میں انہیں اپنے سر پر بھی بٹھادوں تو بھی کم ہے۔
جب ابوالقاسم قشیری اور ابو المعالی جوینی اس کے پاس تشریف لاتے تو نظام الملک تعظیم کے طور پر اٹھ کھڑا ہوتا اور انہیں اپنے ساتھ اپنی جگہ بٹھاتا اور اگر ابوعلی تشریف لاتے تو وہ اپنی نشست چھوڑ دیتا اور کھڑا ہو جاتا، وہ انہیں اپنی جگہ بٹھاتا اور ان کے سامنے بیٹھ جاتا؛ جب اس سے اس بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا: ابوالقاسم قشیری اور ابو المعالی جوینی جب آتے ہیں تو میری تعریف کرتے ہیں، میری عزت کرتے ہیں اور میرے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہیں جو مجھ میں نہیں ہیں، جب میں ان کی باتیں سنتا ہوں تو انسانی خواہشات کے مطابق مجھ سے بڑائی کا اظہار ہوتاہے، لیکن جب ابو علی فارندی آتے ہیں تو وہ مجھے میرے عیب بتاتے ہیں تو میں اپنی غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
ابن اثیر لکھتے ہیں: نظام الملک کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ عالم، دیندار، سخی، عادل، صابر، گناہوں سے بچنے والا اور خاموش انسان تھا۔ اس کی محفلیں قاریوں، فقہاء اور اہل خیر سے بھری رہتی تھیں۔
وہ قرآن کا حافظ تھا، اس نے گیارہ سال کی عمر میں قرآن حفظ کیا تھا۔ وہ شافعی مسلک کی تعلیم و تعلم میں مصروف تھا، ہمیشہ با وضو رہتا تھا اور جب بھی وضو کرتا تھا تو دو رکعتیں تحیۃ الوضو کی نماز پڑھتا تھا۔ جب اذان سنتا تو جس کام میں بھی مشغول ہوتا اسے چھوڑ دیتا۔ اگر اذان ہو جاتی تو وہ نماز پڑھتا اور نماز پڑھنے سے پہلے کوئی دوسرا کام نہیں کرتا تھا۔ اگر مؤذن سے اذان چھوٹ جاتی تو وہ اسے اذان دینے کا کہتا۔ یہ وقت کی پابندی اور نماز کی پابندی کا اعلیٰ مقام ہے جو صرف ان لوگوں کے حصے میں آتا ہے جو دنیا سے بے زار ہوتے ہیں اور خود کو خدا کی عبادت کے لیے وقف کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں علم وعمل میں درجہ کمال تک پنچایاتھا، ایک دن اس نے بیان کیا کہ اس نے شیطان کو خواب میں دیکھا، اس سے کہا: خدا تجھے تباہ کرے، خدا تعالیٰ نے تجھے پیدا کیا اور تجھے براہ راست سجدہ کرنے کا حکم دیا اور تو نے نافرمانی کی، دیکھو مجھے اللہ تعالیٰ نے براہ راست سجدہ کرنے کا حکم نہیں دیا، لیکن میں ہر وقت خدا کے دربار میں سجدہ کرتا ہوں اور اس کے بعد یہ شعر پڑھا۔
من لم يكن للوصال فكل احسانه ذنوب
ترجمہ: جو شخص اپنے محبوب کے دیدار کا خواہش مند نہ ہو تو اس کی تمام نیکیاں گناہ شمار ہوتی ہیں۔
اس کی خواہش تھی کہ اس کی ذاتی مسجد ہو اور وہاں عبادت میں مشغول رہے، وہ ہمیشہ کہتے کہ میری خواہش ہے کہ میرا چھوٹا سا گاؤں ہوتا! اور اس میں ایک مسجد ہوتی، میں دنیاوی مشاغل سے دور رہ کر وہاں عبادت میں مشغول رہتا۔
وہ خاکساری اور عاجزی کا نمونہ تھا، ایک رات کھانے کے لیے دستر خوان کے ایک کونے پر اس کا بھائی ابو القاسم بیٹھا تھا، دوسری طرف خراسان کا گورنر اور اس کے ساتھ ایک فقیر بیٹھا تھا جس کا ایک ہاتھ کٹ چکا تھا۔ نظام الملک نے دیکھا کہ خراسان کا گورنر فقیر سے ناگواری محسوس کررہاہے، تو اس نے فقیر سے کہا، آؤ میرے ساتھ بیٹھو۔
فقیر کو اپنے ساتھ بٹھا کر اس کے ساتھ کھانا کھایا۔
اس کی عادت تھی کہ وہ اپنی روٹی غریبوں کو دیتا تھا، وہ فقیر ومساکین کو اپنے ساتھ بٹھاتا اور ان کے ساتھ کھانا کھاتا تھا۔
اپنے ایک شعر میں کہا:
بعد ثمانين ليس قوة قد ذهبت شهوة الصبوة
كانني والعصا بكفى موسى ولكن بلا نبوةترجمہ: اسی ۸۰ سال کے بعد میری طاقت اور قوت باقی نہیں رہی، اس عمر میں میری جوانی کا جوش اور جذبہ ٹوٹ چکا ہے، جیسے میں موسیٰ علیہ السلام ہوں اور میرے ہاتھ میں عصا ہو، لیکن نبوت کے بغیر موسیٰ ہوں۔
درج ذیل اشعار بھی انہی کی طرف منسوب ہیں:
تقوس بعد طول العمر ظهرى و داستني الليالي ای دوس قامي والعصا تمشى امامي كان قوامها وتر بقوس
عمر کی طوالت کی وجہ سے میری کمر ٹیڑھی ہوگئی ہے، راتیں مجھے بے حال کر دیتی ہیں، میرے حالات اس طرح ہیں کہ عصا میرے سے پہلے چلتا ہے، تم کہو گے جیسے کمان کا دھاگہ ہو۔
اپنی شاعری کے علاوہ دیگر شعراء کا کلام بھی سنتے، ان سے متاثر ہوتے، ایک بار آپ بیمار ہوئے تو علی قومسانی آپ کی عیادت کے لیے آئے تو آپ کو شعر سنایا:
اذا مرضنا نوينا كل صالحة فان شفينا فمنا الزيغ والزلل
نرجو الاله اذا و نخطه اذا امنا فما يز كولنا عملترجمہ: ہم جب بیمار ہوتے ہیں تو ہر اچھائی کی نیت کرتے ہیں، اور جب صحت مند ہو جاتے ہیں تو حق سے منہ موڑ لیتے ہیں اور گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ جب ہم خوف میں ہوتے ہیں تو اپنی امیدیں اپنے حقیقی معبود سے جوڑ لیتے ہیں، اور جب سکون میں ہوتے ہیں تو معبود کو ناراض کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ اشعار سننے کے بعد نظام الملک کافی دیر تک روتے رہے اور پھر فرمایا: میری بھی یہی کیفیت ہے۔
وفات:
۴۸۵ھ دس رمضان، جمعرات کا دن تھا، جب افطار کا وقت آیا تو نظام الملک نے مغرب کی نماز پڑھی اور دستر خوان پر بیٹھے۔ ان کے ساتھ فقہاء، قرآن کے حافظ، صوفیاء اور غریب لوگ موجود تھے۔ نظام الملک نے اسلامی تاریخ کے بارے میں گفتگو شروع کی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور کا ذکر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ جب مسلمان "نہاوند” (جو عراق میں ایک شہر ہے) پہنچے تو وہاں مسلمان اور فارسیوں کے درمیان جنگیں ہوئیں، اور کئی عظیم شخصیات نے شہید ہوئے۔ ان شہیدوں کا ذکر کرتے ہوئے نظام الملک نے کہا کہ وہ لوگ خوش نصیب تھے جو ان شہیدوں میں شامل تھے۔
انہوں نے کھانا کھایا، کھانے کے بعد اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور زنانہ کمرے کی طرف روانہ ہوئے(حدث دیلمی)، اس کے ساتھ ایک اجنبی شخص(حسن بن صباح کی باطنی تحریک حشاشین کا ایک فرد) بھی چل پڑا، ایسا لگتا تھا جیسے وہ اپنی کسی غلطی کی معافی چاہتا ہو یا مدد کی درخواست کر رہا ہو، مگر اس کا ارادہ اچھا نہ تھا۔ اچانک اس نے نظام الملک پر حملہ کیا اور اسے خنجر سے شہید کر دیا؛ اسے حرم (زنانہ کمرے) میں لے جایا گیا۔ جب اس کی آخری سانسیں چل رہی تھیں تو اس کے منہ سے آخری الفاظ یہ نکلے: ’’میرے قاتل کو قتل نہ کرنا، میں نے اسے معاف کردیاہے‘‘ یہ بات کہتے ہی اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردی۔