سلطان محمد؛ (الپ ارسلان)
الپ ارسلان نے اپنے چچا طغرل بیگ کی وفات کے بعد حکومت کی باگ ڈور سنبھالی، اگرچہ حکومت اپنے ہاتھ میں لینے کی وجہ سے ملک میں کچھ مسائل پیدا ہوئے تھے، لیکن الپ ارسلان نے ان مسائل پر قابو پایا۔ الپ ارسلان اپنے چچا طغرل بیگ کی طرح ایک ذہین، تجربہ کار رہنما اور جرات مند شخص تھا۔ اس نے ملک کی سرحدوں کو وسیع کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے۔
وہ علاقے جو سلجوقی سلطنت کے زیر اثر تھے، سب سے پہلے اس نے ان کے انتظام کو مستحکم کیا اور پھر خارجی دنیا کی طرف قدم بڑھایا، سلطان الپ ارسلان ہمیشہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے اور پڑوسی عیسائی سلطنتوں میں اسلام کے پھیلاؤ کے لیے بے چین رہا؛ وہ ہمیشہ کوشش کرتا رہا کہ آرمینیا اور رومی علاقے اسلامی ریاست کا حصہ بنیں۔
حقیقت میں وہ ایک مخلص مجاہد تھا، اور اسلامی جہاد کا روحانی جذبہ ہی وہ واحد سبب تھا جس کی وجہ سے الپ ارسلان کو عظیم فتوحات حاصل ہوئیں اور اس کے جہادی اقدامات کو ایک دینی رنگ ملا۔
سلجوقی سلطنت کا یہ عظیم رہنماء ایک مجاہد شخص تھا اور عیسائی علاقوں میں اسلام کے پھیلاؤ کے لیے عظیم قربانیاں پیش کیں، جس نے بازنطینی سلطنت کے متعدد علاقوں کو اسلامی پرچم کے زیرِ نگین کیا۔ الپ ارسلان نے اپنی حکمرانی کے دوران سرحدوں کی توسیع سے پہلے سات سال تک اپنی حکومت کے دور دراز علاقوں کی صورتحال کا جائزہ لیا، جب ان علاقوں سے متعلق محفوظ ہونے کا اطمینان حاصل کرلیا، تو اپنے بڑے مقصد کو مکمل کرنے کے لیے منصوبہ بندی شروع کردی۔
اس کا مقصد سلجوقی سلطنت کے پڑوس میں واقع عیسائی علاقوں کو فتح کرنا تھا، اور اسی طرح مصر میں فاطمی حکومت، جسے عبیدی حکومت بھی کہا جاتا ہے، کا اقتدار ختم کرنا تھا اور تمام اسلامی دنیا کو عباسی خلافت اور سلجوقی سلطنت کے پرچم تلے جمع کرنا تھا۔ الپ ارسلان نے اپنی ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک بہت بڑی فوج تیار کی اور اس فوج کی قیادت کرتے ہوئے آرمینیا اور جارجیا کی طرف روانہ ہوا، ان علاقوں کو فتح کر کے اپنے قلمرو میں شامل کیا۔
اس نے ان علاقوں میں اسلام کے پھیلاؤ کے لیے بھی کام کیا، الپ ارسلان آگے بڑھتے ہوئے شام کے شمالی علاقوں پر حملہ آور ہوا اور حلب میں مرادسیہ حکومت کو محاصرے میں لے لیا، یہ حکومت 414 ہجری/1023عیسوی میں صالح بن مرداس علی کے ہاتھوں قائم کی گئی تھی، یہ ایک شیعہ حکومت تھی؛ الپ ارسلان نے اس حکومت کے حکمران کو مجبور کیا کہ وہ مصری خلیفہ کی جگہ عباسی خلیفہ کے سامنے تسلیم ہو جائے اور لوگوں کو اس کے احکام کی پیروی کرنے پر قائل کرے۔ اس کے بعد الپ ارسلان نے ایک ترک نژاد رہنماء اتنسز بن اوق خوارزمی کو جنوبی شام پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا۔
خوارزمی نے فاطمیوں سے رملہ اور بیت المقدس واگزار کرالیا، لیکن عسقلان کو فتح نہ کرسکا، جو مصر کی حدود میں داخل ہونے کے لیے ایک اہم دروازے کی حیثیت رکھتا تھا، اس طرح سلجوقی فوج نے بیت المقدس کو عباسی خلافت اور سلجوقی سلطان کے دائرہ سلطنت میں داخل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔