ایسے حالات میں جب افغانستان کئی سالہ امریکی قبضے اور بحرانوں کے بعد آزادی، امن و امان اور اسلامی حاکمیت کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، داعش جیسی انتہاپسند تنظیمیں یہ کوشش کر رہی ہیں کہ افغانستان کے مجاہد اور مؤمن عوام کو گمراہ کریں، ملک میں بدامنی، اختلافات اور تشدد کو جنم دیں اور ان شکست خوردہ بیرونی منصوبوں کو دوبارہ سے عملی جامہ پہنائیں۔
داعش، جس کی بنیاد سخت گیر اور تکفیری نظریات پر رکھی گئی ہے، ہمیشہ استکباری اور خفیہ عالمی طاقتوں کا آلۂ کار رہی ہے۔ نہ صرف یہ کہ اس گروہ کو افغانستان میں کوئی سماجی پذیرائی حاصل نہیں، بلکہ یہ تنظیم افغان عوام کے دینی، فقہی اور ثقافتی اقدار و عقائد سے مکمل طور پر متصادم ہے۔ اس وقت افغانستان کا نظام اسلامی شریعت پر مبنی ہے، اور اس کی قیادت معروف علماء، دینی رہنماؤں اور حفاظِ قرآن کے ہاتھ میں ہے۔
داعش اندھے قتل و غارت، بے بنیاد انتہاپسندی اور مسلمانوں کی تکفیر کے ذریعے اسلام کا ایک ایسا مسخ شدہ چہرہ پیش کرتی ہے، جو امت مسلمہ کو بدنام کرنے کے سوا کچھ نہیں۔
اسلامی فقہ کے نقطۂ نظر سے بھی، ہر ایسی مسلح جدوجہد جو کسی ایسے نظام کے خلاف ہو جو شریعت الٰہی پر مبنی ہو اور اس کے حکمران دین کے احکامات پر عمل پیرا ہوں، بغاوت شمار ہوتی ہے۔ فقہاء اسلام نے اس قسم کی کارروائیوں کو نہ صرف ناجائز قراردیا ہے بلکہ ایسے افراد کو سخت اور شرعی مؤاخذے کا مستحق سمجھا ہے۔
افغانستان کی عوام، جنہوں نے برسوں تک قابض قوتوں کے خلاف مزاحمت کی اور ہزاروں شہداء کی قربانیاں دیں، بخوبی سمجھتے ہیں کہ داعش جیسی تنظیمیں درحقیقت انہی بیرونی سازشوں کا تسلسل ہیں — وہ سازشیں جو دین کے نام پر لیکن امت کے اتحاد کو ختم کرنے، ایمان کو کمزور کرنے اور ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنے جیسے مقاصد کے لیے میدان میں اتاری گئی تھیں۔
آج افغانستان کی منزل ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست ہے، جہاں نہ کوئی بیرونی افواج موجود ہیں، نہ کوئی استعماری ثقافت کا تسلط؛ ایسی سرزمین پر داعش اور اس جیسی دیگر انتہاپسند، پُرتشدد اور فساد پھیلانے والی تنظیموں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ افغانستان کی مسلمان قوم ہمیشہ اپنے دین، وطن اور اقدار کے دفاع میں بیدار اور ثابت قدم رہے گی۔