ہجرت اور بیعت کے مفہوم میں تحریف
داعش کے قیام کی ابتدائ ہی سے اہل علم اور سمجھدار لوگوں پر یہ بات بالکل واضح تھی کہ یہ گروہ نہ تو اللہ کے دین کی خدمت کر رہا ہے اور نہ محمدی شریعت کی، بلکہ یہ صرف اسلام کے دشمنوں کے ہاتھ میں ایک آلہ اور اس دین کے خلاف ایک مہلک ہتھیار ہے۔
داعشی خوارج نے نام نہاد "خلافت” کے جھوٹے جھنڈے تلے ایسے وحشیانہ اقدامات کیے جنہوں نے امت مسلمہ کے جسم کو اندر سے زخمی کیا اور بیرونی دشمنوں کی یلغار کے لیے راہ ہموار کی۔
داعش کے اعمال نے واضح طور پر ثابت کر دیا کہ ان کے باطل دعووں کے باوجود کہ وہ اپنے آپ کو اسلامی تحریک اور مسلمانوں کے محافظ قرار دیتے ہیں، درحقیقت ان کا راستہ مغربی آقاؤں کے مفادات کی تکمیل کے لیے تھا اور جو کچھ بھی وہ کرسکتے تھے، وہ سب انہی کی خاطر کیا۔
مسلمانوں کا قتل، اسلامی ممالک کی تباہی، خونریز فتنے پھیلانا اور اسلام کی ایک وحشی اور غیر انسانی تصویر پیش کرنا، یہ سب وہ خدمات تھیں جو اس گروہ نے کفار کے محاذ کو پیش کیں، وہ امور جن کا اس سلسلے کی گزشتہ اقساط میں ذکر ہو چکا ہے۔
شریعت کے پاکیزہ مفاہیم سے ناجائز فائدہ اٹھانا اور انہیں مسخ کرنا، اس دور کے خوارج کی اپنے آقاؤں کے لیے سب سے بڑی خدمت ہے، انہوں نے جہاد، خلافت، حدود کے نفاذ اور ان جیسے دیگر مفاہیم کو غلط رنگ دیا، انہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور کوشش کی کہ امت کی نئی نسل ان باتوں سے لاتعلق ہو جائے۔
ہجرت اور بیعت بھی وہ شرعی مفاہیم تھے جو خوارج کے شر سے محفوظ نہ رہ سکے۔ یہ دو مفاہیم جو امت مسلمہ کی تعمیر کے بنیادی ستونوں میں شمار ہوتے ہیں، داعشی خوارج نے انہیں فریب اور فتنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔
اسلام میں ہجرت اللہ کے دین کی مدد اور فتنہ سے نجات کے لیے ایک مقدس سفر ہے، جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لا تنقطع الهجرة حتى تنقطع التوبة، ولا تنقطع التوبة حتى تطلع الشمس من مغربها.” (ابوداود)
ترجمہ: ہجرت اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک توبہ قبول ہوتی ہے، اور توبہ اس وقت تک بند نہیں ہو گی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو۔
لیکن داعشی خوارج نے ہجرت کو قتل و خونریزی کا سفر بنا دیا اور نادان نوجوانوں کو اس جھوٹ میں دھوکہ دیا کہ وہ ہجرت کریں، مگر اقامتِ دین کے لیے نہیں بلکہ فتنہ و فساد کے مراکز کی جانب۔
دوسری طرف، بیعت اسلام میں ایک عادل امام سے اطاعت کا عہد ہے جو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو نافذ کرے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"من مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية.” (مسلم)
> ترجمہ: جو شخص مر جائے اور اس کی گردن میں بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
لیکن داعش جس بیعت کی دعوت دیتی تھی، وہ جاہلوں اور کم عقلوں سے بیعت تھی، نہ کہ رہنمائی کرنے والے اماموں سے۔ بیعت کے نام پر امت کو اللہ والے علما اور حقیقی امیروں و مجاہدین سے جدا کر دیا اور لوگوں کو فاسد و فتنہ انگیز لیڈروں کی اطاعت میں پھنسا دیا۔
ان پاکیزہ مفاہیم میں بگاڑ امت مسلمہ پر ایک کاری ضرب تھا، داعش نے عادل حکومت قائم کرنے کے بجائے، جیسا کہ وہ دعویٰ کرتی تھی، اسلامی علاقوں کو خانہ جنگی، قتل عام اور ہجرت کا میدان بنا دیا۔
اب جو بات پوری امت پر آشکار ہوچکی ہے، وہ یہ ہے کہ داعش نہ جہاد کی نمائندہ تھی، نہ اسلامی خلافت کی علامت۔ بلکہ یہ امت کے دشمنوں کی طرف سے چلائی جانے والی ایک سازش اور اندرونی طور پر تباہ کرنے والا ہتھیار تھی۔
آج امت مسلمہ پر لازم ہے کہ ہجرت اور بیعت کے خالص مفاہیم کو داعشی خوارج کی غلط تشریحات سے الگ کرے اور انہیں اس طرح واضح کرے جیسا کہ امت مسلمہ کے لیے ضروری ہے، تاکہ امت کا نوجوان طبقہ دوبارہ خوارج کی میٹھی مگر زہریلی باتوں میں نہ آئے اور اپنے آپ کو اس خطرناک فتنہ سے مقابلے کے لیے تیار کرے۔