مسلمانوں کا خون بہانا:
داعشی خوارج کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف ایک اور بڑا جرم جو انہوں نے کفری دنیا کی نمائندگی کرتے ہوئے کیا، وہ بے گناہ مسلمانوں کا خون بہانا تھا، جس میں انہوں نے باطل حیلے بہانوں سے مسلمانوں کو قتل کیا۔
خوارج کے نزدیک مسلمان کا خون کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا، بلکہ ان کے لیے یہ سب سے ہلکا اور بے وقعت شے تھی، وہ عجیب و غریب اور غلط الزامات کے بہانے سے بے شمار مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بے خوف ہو کر قتل کرتے تھے۔
حالانکہ شریعت اسلام مسلمان کا خون خانہ کعبہ سے بھی زیادہ مقدس مانتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں کعبے کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’مَا أَطْيَبَكِ وَأَطْيَبَ رِيحَكِ، مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ حُرْمَةً مِنْكِ، مَالِهِ وَدَمِهِ، وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا‘‘۔(ابن ماجه، حدیث: ۳۹۳۲)
ترجمہ: اے کعبہ! تم یقینا پاکیزہ مقام ہو! تمہاری خوشبو کتنی مہکدار ہے، تم کتنی عظیم ہو اور تمہاری حرمت کتنی بلند ہے!
مگر قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں محمد ﷺ کی جان ہے، مؤمن کی حرمت اللہ جل جلالہ کے نزدیک تجھ سے بھی زیادہ عظمت والی ہے، اُس کے مال اور اُس کے خون کی حرمت بھی اور یہ کہ اُس کے بارے میں ہمیشہ نیک گمان رکھا جائے۔
ہاں! ایک مسلمان کا خون کعبۂ مطہرہ سے بھی زیادہ مقدس ہے، مگر کتنے ہی بے شمار مسلمان تھے جو داعشی خوارج کے ہاتھوں قتل کیے گئے اور یہاں تک کہ کفری دنیا کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے قتل میں مقابلہ کر رہے تھے۔
بے بنیاد تکفیر، جو خوارج کا ایک بنیادی وصف سمجھا جاتا ہے، داعش کے زیرِ تسلط علاقوں میں اس قدر گہرا اثر کر چکی تھی کہ ذرا سی مذہبی لغزش پر کسی مسلمان کو مرتد قرار دیتے اور پھر بے دردی سے اُس کا سر تن سے جدا کر دیتے۔ جب خوارج کمزور ہونے لگےاور وہ روز بروز اپنے قبضے میں لی گئی زمینیں کھو رہے تھے، تو اپنی زیرِ قبضہ آبادی کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے لگے اور لوگوں کے اپنے علاقوں سے نکلنے سے روکتے۔
یہ سب کچھ ایک ایسی جماعت کے ہاتھوں انجام پا رہا تھا، جو اپنی پروپیگنڈا ویڈیوز کے ذریعے خود کو امت کے محافظ قرار دیتی تھی اور دعویٰ کرتی تھی کہ وہ مسلمانوں کی حفاظت کر رہے ہیں، لیکن حقیقت میں انہوں نے عام لوگوں کی نقل مکانی کو روکنے کے لیے طرح طرح کے اقدامات کیے تھے۔
انہوں نے بعض علاقوں سے نکلنے والے راستوں پر چوکیاں قائم کیں، اور ہر اُس شخص کو جو داعش کے قبضے میں موجود علاقوں سے نکلنے کا ارادہ رکھتا تھا، بے رحمی سے گولیوں کا نشانہ بناتے۔ بعض اوقات وہ اُن مسلمانوں کو، جو اپنے عقیدے اور جان بچانے کے لیے ان کے زیرِ قبضہ علاقوں سے نکلنے کی کوشش کرتے، سب کے سامنے قتل کرتے۔ حتیٰ کہ بعض اوقات انہوں نے نشانہ باز مقرر کیے ہوتے تاکہ فرار ہونے والے لوگوں کو بھاگتے وقت قتل کریں۔
لیکن یہ اُن کی وحشت کی آخری حد نہ تھا، انہوں نے بعض راستوں کو بارودی سرنگوں سے بھر دیا تھا تاکہ جو بھی شخص ان کے تسلط و قبضے سے نکلنے کی کوشش کرے، موت کا شکار ہو جائے۔ یہ بربریت اُس وقت جاری تھی، جب خوارج کے خود ساختہ خلیفہ، ابوبکر البغدادی اپنی جعلی سرحدوں سے باہر، شام کے شہر ادلب کے باریشا علاقے میں، جو اُس وقت تحریرالشام کے زیرِ کنٹرول تھا، مارا گیا۔