نحمده و نصلی علی رسوله الکریم
اما بعد!
مقدمہ:
کسی بھی گروہ، ادارے یا ملک کی مسلسل ترقی اور کامیابی کے لیے مالی وسائل بنیادی اور ناگزیر عناصر میں شمار ہوتے ہیں۔ مالی وسائل ان تمام امکانات کا مجموعہ ہوتے ہیں جو منصوبوں کی تکمیل، خدمات کی فراہمی اور کسی تنظیم، ادارے یا ملک کے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ مادی، انسانی اور تکنیکی وسائل اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں، لیکن مؤثر مالی وسائل کے بغیر ان سے استفادہ ممکن نہیں ہوتا۔
اسی بنیاد پر داعشی گروہ کی مالی طاقت اس بات کا سبب بنی کہ یہ گروہ نہ صرف شام اور عراق کے وسیع علاقوں پر قابض ہو، بلکہ اس نے اپنے حامیوں کی تعداد میں بھی اضافہ کیا، بڑی تعداد میں جنگجو بھرتی کیے اور مختصر وقت میں کئی مؤثر اور کامیاب عسکری کاروائیاں انجام دیں، جس سے اس کے اثر و رسوخ میں زبردست وسعت آئی۔
داعش نسبتاً ان نئی تنظیموں میں سے ایک ہے جنہوں نے مالیاتی نظام کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھا۔ اس تنظیم نے اپنے قیام کے آغاز ہی سے مالی معاونت کے حصول کے لیے مختلف غیر سرکاری تنظیموں اور کچھ ایسے افراد سے فائدہ اٹھایا جو خلیج فارس کے اطراف کے ممالک (خصوصاً سعودی عرب، کویت اور قطر) میں مقیم تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ، داعش نے کئی غیر قانونی سرگرمیوں کو بھی مالی ذرائع کے طور پر اپنایا، جو کہ ان کے مالی استحکام کے بڑے ذرائع میں شمار ہوتے ہیں۔
روس کے اسٹریٹجک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے حوالے سے، ان تجزیوں کی بنیاد پر جو امریکہ نے نومبر 2006ء میں کیے تھے، یہ بات سامنے آئی کہ ’’دولۃ الاسلامیۃ العراق‘‘ (داعش) نے تیل کی اسمگلنگ، اغوا برائے تاوان، رشوت اور دیگر کئی غیر قانونی ذرائع سے سالانہ بنیادوں پر 200 ملین (دو سو ملین) ڈالر سے زیادہ آمدنی حاصل کی۔
اسی طرح امریکی نشریاتی ادارے CBS News کے ایک ماہر تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ داعش نے اپنی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایسی حکمتِ عملیاں اپنائی ہیں جن میں مقامی اور بین الاقوامی عناصر شامل ہیں۔ یہ گروہ اپنے مالیاتی نظام کے لیے ایک خاص اسٹریٹیجی پر عمل پیرا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ مالی لحاظ سے مکمل خودمختاری حاصل کرے۔
اسی طرح امریکی وزارتِ دفاع کی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ داعش نے 2005ء سے 2010ء کے درمیانی عرصے میں (جب ابوبکر البغدادی اس گروہ کی قیادت کر رہا تھا) بہت کم حد تک بیرونی امداد پر انحصار کیا، یعنی صرف 5 فیصد تک ان کا آپریشنل بجٹ بیرونی امداد سے پورا ہوتا تھا۔ ماہرین کے مطابق، خلیج فارس کے کچھ ممالک کی جانب سے ایک سال کے دوران اوسطاً پچاس ملین ڈالر کی بلا معاوضہ امداد فراہم کی جاتی تھی۔
ہر گروہ اپنی سرگرمیوں کے لیے ایک مخصوص حکمتِ عملی اور منصوبہ بندی رکھتا ہے، تاکہ اسے ایک مستقل مالی بنیاد حاصل ہو، جس کے ذریعے وہ اپنے ڈھانچے کو مضبوط بنا سکے، نئے افراد کی بھرتی، تنخواہوں کی ادائیگی، امداد کی تقسیم وغیرہ ممکن ہو سکے۔ داعش نے بھی بھرپور کوشش کی ہے کہ مالی طور پر خود کفیل بنے اور اپنے تمام معاملات میں خودمختار رہے۔
ہر تنظیم اپنے کاموں اور سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے ایک مخصوص حکمتِ عملی اور لائحہ عمل رکھتی ہے، اور کوشش کرتی ہے کہ اسے ایک مستقل مالی بنیاد حاصل ہو، تاکہ اس کی بنیاد پر وہ اپنا ڈھانچے کو وسعت دے سکے، نئے افراد کو بھرتی کرے، انہیں تنخواہیں دے اور مالی امداد فراہم کرے۔
داعش نے بھی بھرپور کوشش کی ہے کہ مالی لحاظ سے خود کفیل ہو اور اپنے تمام معاملات میں خودمختار رہے۔
داعش کے تنظیمی ڈھانچے میں کئی غیر ملکی جنگجو گروہ شامل ہیں، اور ہر فرد کو اس کے ملک اور مہارت کے مطابق ماہانہ اوسطاً 350 سے 500 ڈالر تنخواہ دی جاتی ہے۔
اسی طرح اگر ان کے گروہ کا کوئی فرد مارا جاتا ہے تو اس کی بیوہ کو 50 ڈالر اور اس کے بیٹے کو 25 ڈالر بطور مالی امداد دی جاتی تھی۔
مثال کے طور پر اگر ہم یہ فرض کریں کہ داعش کے پاس مجموعی طور پر 30 ہزار مسلح جنگجو موجود ہوں، تو ان کے صرف ماہانہ تنخواہوں پر تقریباً ۱۰ ملین (ایک کروڑ) ڈالر خرچ ہوتے ہیں، جو ان کی کل بجٹ کا بڑا حصہ ہے۔
تحریر کے مقاصد:
چونکہ مالی وسائل کسی بھی سرگرمی کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے ہیں، لہٰذا ان وسائل کی افزائش یا کمی براہِ راست ان سرگرمیوں پر اثر ڈالتی ہے۔
اسی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، اور اس لیے کہ داعش کی مالی شہ رگ کاٹ دی جائے، اس تحریر کے اہم مقاصد درج ذیل ہیں:
۱۔ داعش کے ذرائع آمدن کو ابتدا سے لے کر اب تک مکمل طور پر جانچنا
۲۔ داعش کے مالی وسائل کی ترسیل کے طریقوں کی نشاندہی
۳۔ ان مالی وسائل کے مصرف (خرچ) کے طریقوں کی پہچان
۴۔ داعش کو مالی طور پر مدد فراہم کرنے والے اہم حمایتیوں کی شناخت
۵۔ داعش کے مالی ذرائع کو ختم کرنے کی مؤثر اور جامع حکمتِ عملی
۶۔ مذکورہ نکات کے علاوہ، عوامی شعور اجاگر کرنا، تاکہ عوام اور ریاست اس خطرناک گروہ کی سرگرمیوں سے باخبر رہیں اور بروقت اس کا سد باب کیا جا سکے۔