تاریخ کا ایک مختصر لیکن واضح جائزہ یہ ثابت کر دیتا ہے کہ اسلامی سرزمین کو اکثر ایسے گروہوں سے نقصان پہنچتا رہا ہے جو بظاہر تو اسلام کے پردے میں آتے ہیں لیکن حقیقت میں دشمنوں کے اہداف کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں۔
اگرچہ دشمن کے پاس اسلامی سرزمینوں کو تسخیر کرنے اور اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے کئی طرح کے طریقے ہیں لیکن اسلامی لبادہ اور وضع قطع وہ چور دروازہ ہے کہ جس کے ذریعے اسلام دشمن اسلام دوستوں اور خیر خواہوں کے طور پر اسلامی اجتماعیت میں داخل ہو سکتے ہیں۔
داعشی گروہ دشمنوں کے اس مذموم منصوبے کی ایک واضح اور عملی مثال ہے کہ جو بظاہر اسلامی شکل و صورت اختیار کر کے اسلامی شعائر و اقدار کے خلاف بدترین گروہ میں تبدیل ہو چکا ہے۔
اگرچہ داعش دنیا میں خلافت اسلامیہ کے احیاء اور قیام کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن درحقیقت وہ اس پرفریب شعار کو نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
اگر ہم اس مسئلے کی مزید تفصیل میں جائیں تو معلوم ہو گا کہ داعش متدین نوجوانوں کی توانیاں اسلام کے خلاف استعمال کرتی ہے، وہ نوجوان جو برسوں سے اسلامی نظام کے قیام کی کوششش و تلاش میں رہے اور غیر اسلامی حکومتوں کے ظلم و ستم کا شکار تھے، وہ داعش کے بظاہر خوبصورت پراپیگنڈہ کا شکار ہوکر بہت جلد ان کی صفوں میں شامل ہو گئے، لیکن شمولیت کے بعد جب انہیں حقیقت کا ادراک ہوا کہ ان کی توانائیاں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کی جا رہی ہیں، تو انہوں نے کوشش کی کہ جلد از جلد یہ غلط راستہ چھوڑ دیں۔
اسی دوران داعش کے تکفیری دہشت گرد گروہ نے اس چور دروازے کے ذریعے اپنے آقاؤں کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیا۔ اسلام دشمنوں نے بجائے اسلامی قوت (نوجوانوں) کو مختلف طریقوں سے ختم کرنے کے داعش کے ساتھ وفاداری کے ذریعے سے اسے بہت آسانی کے ساتھ اپنے راستے سے ہٹا دیا۔
داعش علاقائی انٹٰیلی جنس اداروں کے مکمل تعاون کے ساتھ سامنے آئی اور آغاز میں اس کے کاموں میں بہت تیزی تھی، جس کی وجہ سے اس نے جذباتی نوجوانوں کو بہت جلدی اپنی طرف مائل کر لیا، لیکن حالیہ عرصے میں یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ بیشتر ایسے نوجوان اپنے دینی اور اسلامی مصادر سے ناواقفیت کی وجہ سے اس جاہلیت اور ظلم و ستم کے قافلے کے ساتھی بنے۔