افغانستان داعش کے لیے موزوں سرزمین کیوں نہیں؟
جس طرح افغانستان کی سرزمین نے بہت سے علاقائی اور بین الاقوامی تغیرات میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے، اُسی طرح مختلف عسکری اور سیاسی تحریکوں اور نظریات نے اس خطے پر قبضہ کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ ان سب کی سوچ میں یہ نکتہ متفقہ طور پر رہا ہے کہ یہ علاقہ کسی بھی تحریک کے لیے ایک اسٹریٹیجک مقام ہو سکتا ہے۔
لیکن اس سرزمین کی اہمیت اور طاقت کا اصل راز ان دینی اصولوں اور بنیادوں میں ہے جو یہاں رائج ہیں، اور ان دین دار اور باضمیر لوگوں میں ہے جو اس خطے اور سیاسی وحدت میں زندگی بسر کرتے ہیں۔
داعش اگر واقعی اس خطے میں اپنے لیے کوئی پناہ گاہ تلاش کرنا چاہتی تھی، تو اسے چاہیے تھا کہ پہلے افغانستان کی تاریخ کو اچھی طرح سے مطالعہ کرتی، اور ایک مکمل، گہرے اور ہمہ گیر تجزیے کے بعد ہی یہاں قدم رکھتی؛ تاکہ ماضی کی غلطیاں دوبارہ نہ دہرائی جاتیں۔
انہوں نے اپنی تلواروں اور دین مخالف نظریات کو چھپانے کی کوشش کی اور چاہا کہ اس سرزمین کے لوگوں کو ۔۔۔ جن کی کل متاع اور اصل دولت دین اور دینداری ہے۔۔۔ دین دار بن کر دکھائیں اور اس بہانے کم وقت میں طویل فاصلہ طے کریں۔
متغیر حالات کے حوالے سے افغان عوام کی خصوصیات:
اگرچہ اس ملک میں کئی طرح کی محرومیاں، تنگ دستی اور مشکلات پائی جاتی ہیں، اور یہاں کے لوگ نسبتا محرومیت کا شکار ہیں، لیکن ان محرومیوں نے کبھی بھی ان کو اس حد تک بے غیرت، بے شعور اور بے ضمیر نہیں بنایا کہ وہ اپنے آپ کو، اپنے وطن کو یا اپنے دینی عقائد اور اقدار کو بیچ ڈالیں۔
درحقیقت، افغان عوام کی ایک نمایاں خصوصیت دین اور دینی عقائد سے ان کا گہرا اور مضبوط تعلق ہے،
جس نے مختلف مواقع پر ان کی مدد اور رہنمائی کی ہے اور یہی تعلق ان کے اتحاد اور یکجہتی کی بنیاد بنا ہے۔
اگرچہ افغانستان کے عوام کے درمیان کئی معاملات میں اختلافات پائے گئے ہیں، اور بعض اوقات یہ اختلافات خطرناک حد تک بھی پہنچے ہیں، لیکن یہ اختلافات کبھی اس حد تک نہیں پہنچے کہ انہوں نے دینی وحدت کے خلاف ہی ایک دوسرے کے خلاف بغاوت کی ہو، بلکہ ان اختلافات کے ہوتے ہوئے دینی اتحاد کا جذبہ انہیں دوبارہ اکٹھا ہونے اور مشکلات سے نکلنے کا ذریعہ بنا ہے۔
داعش جن کے بڑے ناپاک مقاصد میں ایک مقصد لوگوں کے درمیان تفرقہ اور دوری پیدا کرنا تھا اور ہے،
وہ کبھی بھی اس سرزمین میں اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہاں کے لوگ دین اور اسلام کی بنیاد پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، اور وہ رشتہ جو دینی تعلیمات کے ذریعے افغان قوم کو آپس میں جوڑتا ہے، وہ ایسا رشتہ ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں۔
ایک اور نمایاں خصوصیت جو اس سرزمین کے لوگوں میں پائی جاتی ہے، اور جس کی وجہ سے اس سرزمین کے دشمن آج تک انہیں غلام نہیں بنا سکے، وہ ان کی بہادری اور مظلوموں کی حمایت کا جذبہ ہے۔
تاریخ میں کئی شہادتیں اور واقعات درج ہیں جن میں ان لوگوں کی دلیری، شجاعت اور جوانمردی کو ثبت کیا گیا ہے۔
ماضی اور حال دونوں میں اس علاقے کے لوگ بہادر مجاہدین اور عظیم رہنماؤں کے طور پر پہچانے جاتے ہیں، ایسے بہادر جن کی کامیابی کا راز دین داری اور دین سے وابستگی میں مضمر ہوتا ہے۔
مشہور مصری دانشور امیر شکیب ارسلان افغان قوم کے بارے میں یوں فرماتے ہیں:
"اگر دنیا بھر سے اسلام کا نام و نشان مٹ جائے، تب بھی میں یقین سے کہتا ہوں کہ ہندوکش کے پہاڑوں میں رہنے والوں کے دل اسلام کے لیے دھڑکتے رہیں گے۔”
آج بھی دنیا کے نزدیک اہلیانِ افغانستان کے بارے میں یہی نظریہ قائم ہے، ایسا نظریہ جسے کوئی بھی طاقت کبھی بدل نہیں سکی اور نہ بدل سکتی ہے۔
افغان عوام کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ ان کے دلوں میں بھائی چارے اور وطن سے محبت کا مضبوط جذبہ ہے، اور یہی جذبہ ہمیشہ بدعنوانی، فرقہ واریت اور دشمن کے اثر و رسوخ کے پھیلاؤ کے خلاف ایک مضبوط دیوار رہا ہے۔
داعش ایک ایسی جماعت تھی جو حقیقت میں تفرقہ پھیلانے اور لوگوں کے درمیان دہشت و وحشت قائم کرنے کے لیے وجود میں آئی تھی، لیکن وہ کبھی اپنے ان ناپاک ارادوں میں کامیاب نہیں ہو سکی، اور افغانستان میں آ کر اپنی اس بڑی غلطی کا جلد احساس کر لے گی۔